تسنیم جعفری
(قسط نمبر 1)
’’اوہو بھئی پنکھا کیوں بند کر رکھا ہے۔؟ پہلے ہی اتنی گرمی ہے، ہوا بھی بالکل بند ہے۔!‘‘ پاپا نے باہر سے آتے ہی غصہ کیا۔
’’ہاں واقعی! ابھی تو مارچ بھی ختم نہیں ہوا اور گرمی کتنی بڑھ گئی ہے۔ ہمارے بچپن میں تو مارچ بہت خوش گوار ہوا کرتا تھا۔‘‘ ممی نے بھی پاپا کی تائید کی۔
’’پاپا ایسا تو نہیں کہ کوئی ہماری ہوا چوری کر لیتا ہو جو گرمی اتنی بڑھتی جا رہی ہے۔؟‘‘ عمیر نے سوچ کر کہا۔
’’کیا فضول بات ہے۔! بھلا کوئی ہوا کو بھی چرا سکتا ہے۔؟ یہ تو ایک قدرتی چیز ہے جو آسمان سے آتی ہے، بیٹا آپ کے ذہن میں ایسی باتیں کیسے آ جاتی ہیں۔؟‘‘ممی نے خفگی سے عمیر کو دیکھا کیونکہ وہ عمیر کے سائنسی سسپینس سے بہت تنگ تھیں۔‘‘ عمیر اپنی عینک درست کرکے رہ گیا۔
’’ارے بھئی آپ میرے بیٹے کی سائنس سے کیوں اتنا چڑتی ہیں۔؟ یہ وہی بات کرتا ہے جو وہ نیٹ پردیکھتا ہے۔‘‘ پاپا نے اس کی حمایت کی۔
’’اسی لئے تو چڑتی ہوں کہ یہ اپنی کتابیں پڑھنے کے بجائے سارا دن نیٹ پر کیوں بیٹھا رہتا ہے۔؟ میں چاہتی ہوں جتنا وقت یہ کمپیوٹر پر ضائع کراتا ہے وہ وقت اپنی کتابیں پڑھنے کے لئے لگائے تاکہ پوزیشن تو لے لے! نیٹ پر بیٹھ کر کیا ملتا ہے۔؟‘‘
’’ممی نیٹ پر تازہ ترین خبریں ہوتی ہیں۔‘‘ حماد نے عینک درست کرتے ہوئے مختصراً کہا۔
’’اچھا تو کیا ہے آج کی تازہ ترین خبر ہے۔‘‘ ممی نے پھر طنز کیا۔
’’جی سنیئے!‘‘ عمیر عینک ٹھیک کرکے اپنے پی سی پر جھک گیا،’’خلائی سائنسدان کہتے ہیں کہ دو ممکنات ہیں۔! یا تو ہم اس کائنات میں بالکل تنہا ہیں، یا تنہا نہیں! دونوں باتیں ہی خوفزدہ کرنے والی ہیں۔!‘‘
’’لوجی! اس میں خوفزدہ ہونے کی کیا بات ہے…؟ اگر اس کائنات میں کہیں کوئی مخلوق ہے بھی تو کیا وہ ہم سے لے کر کھاتی ہے جو ہم پریشان ہوں، ہمیں بھی اللہ نے رزق دیا ہے ان کو بھی دیا ہوگا۔ اللہ اللہ خیر سلہ!‘‘ ممی نے تو بات ہی ختم کر دی۔
’’ارے بھئی ڈرنے کی بات یہ ہے کہ اگر اس کائنات میں کہیں کوئی مخلوق ہے تو وہ ہماری دنیا میں بھی ضرور آتی ہوگی اور اس دنیا کو جو اللہ تعالیٰ نے بیش بہا خزانے ہوا، پانی اور سبزے کی صورت میں دیئے ہیں وہ ان کو دیکھ کر للچاتے ہوں گے کیونکہ اس کہکشاں میں کہیں اور ایسی چیزیں نہیں ہیں۔‘‘ پاپا نے تفصیل بتانے کی کوشش کی۔
’’پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ اللہ کی بخشی ہوئی کوئی نعمت اللہ کی مرضی کے بغیر ہمارے سے چھین ہی نہیں سکتے اور اگر لے بھی جائیں تو اس بیش بہا خزانے میں کوئی کمی نہیں ہو سکتی…! مل بانٹ کر کھانے میں برکت ہوتی ہے۔‘‘
’’ارے آپ کو تو سمجھانا ہی مشکل ہے! اب یہ دیکھیئے ہماری زمین سے آکسیجن اتنی کم ہوتی جا رہی ہے کہ آئندہ پچاس سال بعد یہ حال ہوگا کہ اگر آپ اپنا چولہا جلانے کے لئے ماچس جلانا چاہیں گی تو وہ جلے گی ہی نہیں کیونکہ ہوا میں آکسیجن ہی نہیں ہوگی جو اس کو جلائے۔ اب بتایئے کیا اب بھی آپ ان ایلین کی ہی حمایت کریں گی جو ہماری آکسیجن پر نظر رکھتے ہیں۔؟‘‘ پاپا اخبار سے خبر سناتے ہوئے بولے۔
’’آئے ہائے تو کیا ہوا سے آکسیجن بھی کوئی چرا سکتا ہے؟ آپ بھی کیسی باتیں کرتے ہیں… یہ تو ہمارے اپنے اعمال ہی خراب ہیں جو ہم قدرتی خزانوں کو گنوا رہے ہیں!‘‘
’’آج نہیں تو کل پتا چل ہی جائے گا کہ ہماری آکسیجن کہاں جاتی ہے…؟‘‘ (جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد حسن طارق ،یوکے
عبد الہادی،عنزہ علی۔لاہور
ہانیہ قادر۔لاہور
اُم ابیہا زاہد۔لاہور