اسلام آباد (خبرنگار) سینٹ نے پشاور دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہاکہ تمام سیاسی جماعتوں کو انسداد دہشت گردی کے یک نکاتی ایجنڈے پر متحد ہونا ہوگا۔ نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔ نیکٹا کو مکمل فعال کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومتی سینیٹرز نے کہا کہ پارلیمنٹری انکوائری کی جائے کہ پاکستانیوں کو اعتماد میں لئے بغیر ٹی ٹی پی کو بحالی کے لئے لایا گیا، انسداد دہشت گردی پر واضح پالیسی ہونی چاہیے۔ ہماری لولی لنگڑی حکومت ہے اس میں کچھ نہیں ہے، لوگ گالیاں دے رہے ہیں، الیکشن کا اعلان کیا جائے، کیا ہم اس وقت متحد ہوں گے جب پارلیمنٹ پر بھی خودکش حملہ ہوگا۔ امریکی کہتے ہیں کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیاں ڈالروں کے لیے دی ہیں۔ دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے والے سو رہے ہیں۔ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کی زیرصدارت منگل کو ہونے والے ایوان بالا کے اجلاس میں پشاور اور ملک کے دیگر علاقوں میں ہونے والی حالیہ دہشتگردی کے واقعات پر بحث کی گئی۔ سینیٹر رضا ربانی نے کہاکہ دہشتگردوں کو مسجد ہی کیوں نظر آتی ہے، پارلیمانی کمیٹی سے اجازت نہیں بلکہ آگاہ کیا گیا کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات جاری ہیں۔ مطالبہ کرتا ہوں کہ پارلیمنٹری انکوائری کی جائے کہ پاکستانیوں کو اعتماد میں لئے بغیر ٹی ٹی پی کو بحالی کے لئے لایا گیا۔ ٹی ٹی پی سے مذاکرات سے متعلق آگاہ نہیں کیا گیا۔ سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کہاکہ پشاور دہشتگردی واقعے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ ابھی تک ان لاشوں کی تدفین نہیں ہوئی اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی جا رہی ہے۔ عمران خان کے علاوہ ان کو کوئی آدمی نہیں ملتا جس پر تنقید کی جائے۔ سینیٹر بہرہ مند تنگی نے کہاکہ پشاور میں دھماکہ ہوا۔ کالجوں، مدرسوں میں دھماکوں کا ذمہ دار کون ہے، ہم کب تک کے پی کے میں لاشیں اٹھائیں گے، ہم تھک گئے ہیں۔ اس پر سیاست نہ کی جائے۔ آج تک لاشیں نکالی جارہی ہیں۔ سینیٹر طاہر بزنجو نے کہاکہ اچھی خبریں نہیں مل رہی ہیں، صرف کشت خون کی خبریں مل رہی ہیں۔ مسجد پر حملے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ ہمارے فارن پالیسی کی وجہ سے کسی پڑوسی کے ساتھ اچھے تعلقات نہیں ہیں، ہماری کوئی عزت نہیں ہے۔ سینیٹر زرقا تیمور سہروردی نے کہاکہ پشاور سانحے کی وجہ سے پوری رات نیند نہیں آئی۔ سینیٹر رانا مقبول نے کہاکہ نوازشریف ملک کے محسن ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔ عرفان صدیقی نے بھی پشاور دھماکہ کی مذمت کی اور عمران خان کو دہشت گردی کیخلاف مذاکرات کی دعوت دی۔ سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے کہا دہشتگردی کے خلاف سپیشل فورس بنانی ہوگی۔ سینیٹر اعجاز چوہدری نے کہا کہ آج ہمارا قومی جسم زخم زخم ہے۔ اللہ شہداء کے خون کے صدقہ پاکستان کو متحد کردے۔ سینیٹر فوزیہ ارشد اور سینیٹرکیشو بائی نے بھی پشاور حملے کی مذمت کی۔ سینیٹر عابدہ عظیم نے کہاکہ ملک میں سب سے زیادہ دہشتگردی کے واقعات صوبہ کے پی کے اور بلوچستان میں ہوئے ہیں، پاکستان میں سب سے سستی چیز پشتونوں کا خون ہے۔ سینیٹر دلاور خان نے کہاکہ ہمیں اپنی غلطیوں کو ٹھیک کرنا ہوگا۔ سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ پاکستان کی پالیسیاں درست نہیں ہیں۔ آزاد خارجہ پالیسی بنائیں تو یہ مشکلات حل ہوں گی۔ عمران خان جاتے ہوئے دہشت گردی کے سرنگے بچا کر گیا ہے ۔ سینیٹر ثانیہ نشتر نے کہا کہ پشاور نے بہت صعوبتیں برداشت کی ہیں، ہمارے کلاس فیلو شہید ہوئے ہیں۔ سینٹ کو آگاہ کیا گیا کہ اوگرا افسران رینٹ گاڑی فی کلومیٹر 10 روپے استعمال کرتے ہیں۔ یہ فیصلہ اوگرا نے نہیں بلکہ حکومت نے خود کیا ہے۔ گزشتہ روز سینٹ میں وقفہ سوالات کے دوران سینیٹر مشتاق احمد کے سوال کے جواب میں وزیر مملکت نے بتایا کہ حکومتی ایل پی جی پالیسی 2016کی کلاز 3.5.1کے مطابق اوگرا لائسنس کی حامل کوئی بھی پارٹی حکومتی ٹیکسز اور ڈیوٹیز ادا کرنے کے بعد ایل پی جی درآمد کرسکتی ہے۔ سینیٹر دوست محمد خان کے سوال کے جواب میں تحریری طور پر بتایا گیا کہ ایم ایس ونگ وفاقی حکومت کی ایک ان ہائوس منیجمنٹ کنسلٹنسی آرگنائزیشن ہے ۔ سیکرٹریٹ ہدایات کی ہدایت نمبر 75کے مطابق ایم ایس ونگ حکومت کی غیرضروری توسیع کو روکنے اور قواعد انصرام کار کے جدول دوم کے تحت وزارتوں، شعبہ جات کو مختص کردہ فرائض کی ڈیلیکشن ، اورلیپنگ کے خاتمے کی ذمہ داری ہے۔ سینیٹر مشتاق احمد کے سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ سائبر سکیورٹی پر عمل درآمد ایک وسیع موضوع ہے جس میں ایکو سسٹم کو قابل بنانا درکار ہے (پہلے ہی سے نیشنل سائبر سکیورٹی پالیسی تصور کیاگیا) جو کہ عالمی معیارات اور بہترین روایات کے ساتھ مطابقت میں ہونا چاہئے۔ لہذا اس کیلئے بین الشعبہ جاتی نظریہ اپنانا ہوگا۔ وزیر قانون و انصاف شہادت اعوان نے کہا کہ یہ فیصلہ اوگرا نے نہیں بلکہ حکومت نے خود کیا ہے۔ سینیٹر کامران مرتضی کے سوال کے جواب میںبتایا گیاکہ یو ایس ایف کمپنی مالی سال 2005-06کے دوران کمپنی آرڈیننس کی دفعہ 42کے تحت ملک بھر میں غیر سروس اور کم سروس والے علاقوں میں ٹیلی کام خدمات کی فراہمی کیلئے قائم کی گئی ہے۔ یو ایس ایف سروس ملک بھر میں ٹیلی کام خدمات کی فراہمی کا ذمہ دار ادارہ ہے ۔
سینٹ
سینٹ ٹی ٹی پی کو واپس لانے کی انکوائری کی جائے دہشتگردی کیخلاف واضح پالیسی ہونی چائیے : حکومتی سیپینٹرز
Feb 01, 2023