کراچی کے پرائیوٹ سکول میں اردو بولنا گناہ بن گیا
ٹیچر نے سیاہی لگانے کے بعد بچے کو ڈسک پر کھڑا کر کے دوسرے بچوں کو اس کا مذاق اڑانے کا کہا
بچے کے والد کی ویڈیو وائرل،شکایت پر سکول انتظامیہ خاموش
میں بچے کی عزت نفس مجروح کر کے اسے یہاں نہیں پڑھا سکتا،والد
عیشہ پیرزادہ
eishapirzadah1@hotmail.com
بچہ بولنا شروع ہوتا ہے تو والدین کی پہلی ترجیح اسے انگریزی زبان سیکھانا ہوتی ہے۔یہ انٹرنیشنل رابطے کی زبان اب ہمارے اقدار میں اس قدر رچ بس گئی ہے کہ یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ ہماری قومی زبان ہو۔ بچے کو انگریزی زبان کے رنگ میں ڈھالنے کے پیچھے کئی وجوہات ہیں۔ اوّل تو یہ کہ پرائیوٹ سکولز میں والدین کو تاکید کی جاتی ہے کہ وہ بچے سے گھر پر بھی انگریزی زبان میں بات کریں۔ دوسرا ہمارے معاشرے کا بھی قصور ہے جس نے قومی زبان کی اہمیت ختم کر دی ہے، یہ بجا ہے کہ اب آگے وہی بڑھ پاتا ہے جسے انگریزی زبان پر عبورحاصل ہو اور اگر بچپن سے انگریزی بولنا نہیں سیکھائی جائے گی تو آگے چل کر یہ بچے کے لیے بڑی کمزوری بن جاتی ہے۔ تیسرا یہ کہ ایسے والدین جنھوں نے انگریزی پر عبور نہ رکھنے کے سبب مشکلات سہیں ہوں وہ یہ نہیں چاہتے کہ ان کے بچے بھی ان حالات سے گزریں لہذا وہ اپنے بچوں کا داخلہ انگلش میڈیم سکولوں میں کرواتے ہیں ۔ اب بچہ جسے گھر میں اردو سننے اور بولنے کا ماحول ملا ہو وہ جب انگلش میڈیم سکول جاتاہے تو ساتھی طلباء کو فر فر انگریزی بولتا دیکھ کر احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ احساس کمتری اس وقت شدت اختیار کرتا ہے جب بچہ انگریزی بولنے کی کوشش میں کچے پکے جملے بولتا ہے اور جسے سن کر نہ صرف ساتھی طالب علم مذاق اڑاتے ہیں بلکہ اساتذہ بھی بچے کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ یہاں اردو اور انگریزی زبان کا بچے کے ذہن میں تصادم ہوتا ہے۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ جب بھی کسی کام کی ابتداء ہو تو وہ خامیوں سے پاک نہیں ہوتا، بلکہ بار بار کوشش اور غلطیوں سے سیکھ کر ہی کام میں پختگی آتی ہے۔ایسا ہی ایک واقعہ کراچی کے سکول میں سامنے آیا جہاں’اردو بولنے پر کمسن طالب علم سے بدسلوکی‘ کی گئی ہے۔
چند روز قبل نارتھ ناظم آباد بلاک جے کے سکول میں سامنے آنے والے معاملے کو سوشل میڈیا پر شیئر کرنے والوں نے تعلیمی ادارے اور اس میں پیش آنے والے واقعے کا ذکر کیا تو اس عمل پر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے غم و غصہ کا اظہار کیاگیا۔بچے کے والد سے منسوب ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی جس میں انہوں نے بتایا کہ ’سکول میں اردو بولنے پر ان کے صاحبزادے کے چہرے پر سیاہی ملی گئی اور اس حال میں انہیں دیگر بچوں کے سامنے کھڑا کر کے انہیں ہنسنے کا کہا گیا۔‘
ویڈیو پیغام میں بچے کے والد کا کہنا تھا کہ ’انتظامیہ سے اس واقعے پر بات کی تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے ہیںانہوں نے ویڈیو میں اپنے بیٹے کو دکھاتے ہوئے کہا تھا کہ ’شکایت لگانے پر مجھے اندازہ ہے کہ یہ بچے کو فارغ کریں گے، کر دیں لیکن میں بچے کی عزت نفس مجروح کر کے اسے یہاں نہیں پڑھا سکتا۔‘ اس واقعہ کے سامنے آنے کے بعد کئی سوال اٹھے لیکن اب تک سکول کی جانب سے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔
یہ صرف ایک واقعہ ہے جو سامنے آیا، روز ایسے کئی بچے اس قسم کی صورتحال کا سامنا کرتے ہیں۔ ان کا قصور یہ ہے کہ یہ اردو اور انگریزی زبان کے درمیان تقسیم ہو گئے ہیں۔ جو بچے گھر اور سکول دونوں جگہ انگریزی کو بطور رابطے کے زبان استعمال کرتے ہیں ان کے لیے اردو فرنچ زبان جیسی بن جاتی ہے، لیکن فرق بس یہ ہے کہ وہ اردو نہ آنے پر فخر سے کہتے ہیں کہ ہمیں اردو بولنی نہیںآتی۔
’’اعتدال‘‘ حسن ہے۔ یہ اگر ہم نصاب سے لے کر سوچ تک میں نافذ کر لیں تو یقینا ہر مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ اردو اور انگریزی ‘دونوں زبانوں کی اہمیت برابر ہے۔لہذا اساتذہ کو چاہیے کہ اس بات کو ذہن نشین رکھیں اور ایسے بچے جنھیں انگریزی بولنے میں مشکل پیش آتی ہے ان کی مدد کریں،انہیں بولنا سیکھائیں، ان سے اکیلے میں پیار سے پوچھیں کہ کونسی جھجک یا مشکل ہے جس کے باعث وہ کامیاب نہیں ہو پا رہے۔ بچوں کے ذہن میںکئی سوال گردش کرتے ہیں، جن کا جواب انھیں نہ ملے تو وہ کنفیوژ رہتے ہیں۔ جبکہ کچھ بچے ایسے بھی ہیں جو جھجک یا شرم کے باعث کلاس روم میں سٹوڈنٹس کے سامنے ٹیچر سے کوئی سوال نہیں کرتے ۔ ایسے میں ٹیچر کو چاہیے کہ وہ بچے کی نفسیات کو سمجھے اور اسے درپیش مسئلہ حل کرے نہ کہ اس کے ساتھ بد سلوکی سے پیش آئے۔