پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں سانحہ پولیس لائنز پشاور پر ارکان نے جذباتی انداز میں اظہار خیال کیا ،ارکان نے واقعہ کے ذمہ داران کو گرفتار کر کے قانون کے کٹہرے میں لاکر سخت سے سخت سزا
دینے کا مطالبہ کیا ،وفاقی وزیر شازیہ مری قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے شہدا کا تذکرہ کرتے کرتے آبدیدہ ہوگئیں،قومی اسمبلی کا جلاس ڈیڑھ گھنٹے تاخیر سے شروع ہوا،سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے جب وزیر دفاع کو خطاب کی دعوت دی تو وہ غلطی سے ان کا نام پکارنے کی بجائے ان کے والد خواجہ محمد صفدر کا نام لے بیٹھے ،جب ارکان نے ان کی توجہ دلائی تو سپیکر نے کہا کہ وہ میرے بزرگ تھے میرے ذہن میں ان کا نام آگیا ،ایوان میں خواجہ آصف کی (باقی صفحہ 7پر)
تقریر کے دوران ارکان آپس میں گپیں لگاتے رہے جس پر سپیکر نے ارکان کو بار بار ٹوکا اور کہا کہ اپنی نشستوں پر خاموشی سے بیٹھیں بہت اہم مسئلے پر بحث ہو رہی ہے ،رکن اسمبلی عائشہ رجب ایوان میں بیٹھی چاکلیٹ کھاتی رہیں ،تقریر کے دوران جب شیخ روحیل اصغر نے پچھلی نشست پر بیٹھ کر طاہرہ اورنگزیب سے بلند آواز میں گفتگو جاری رکھی تو خواجہ آصف نے پیچھے مڑ کر کہا ”شیخ صاحب“جس پر شیخ روحیل اصغر خاموش ہو گئے ،خواجہ آصف نے دہشتگردی کے واقعات کا سارا ملبہ سابقہ حکومت اور ٹی ٹی پی کے ارکان کو واپس لا نے والوں پر ڈال دیا،وہ مایوسی کے ساتھ ماضی کی پالیسیوں کوکو ستے رہے ،انہوں نے نام لیے بغیر کہا کہ اقتدار کے غم میں ایک شخص ”باﺅلا “ہو گیا ہے ۔نو ر عالم خان نے مائیک پر بات کر نے کی اجازت مانگی تو سپیکر نے کہا کہ پہلے پالیسی بیان آلینے دیں پھر آپ بول لیں جس پر نور عالم جذباتی ہو گئے اور پھر سپیکر کو مائیک ان کے حوالے کر نا پڑا، انہوں نے ایوان میں بیٹھے ارکان کی غیر سنجیدگی پر بھی شدید تنقید کی اور بولے کہ یہاں بیٹھے سب لوگ گپ شپ لگا رہے ہیں ان کو پتہ نہیں کہ پشاور میں جو ہوا ہے؟انہوں نے وزیر اعظم سے مطالبہ کیا کہ وہ ایوان میں آکر ارکان کو بریفنگ دیں،نور عالم خان کی جذباتی تقریر پر ایوان کا ماحول سوگوار ہو گیا ۔
پارلیمنٹ کی ڈائری