ڈاکٹر سلیم اختر
1975ء میں سرکاری سطح پر کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے 5 فروری کو ’’یوم یکجہتی ِ کشمیر‘‘ کے طور پر منانے کا آغاز کیا۔بعدازاں باضابطہ طور پر یوم یکجہتی کشمیر منانے کا سلسلہ فروری 1990ء سے جماعت اسلامی پاکستان کے امیر قاضی حسین احمد کی اپیل پر شروع ہوا جسے حکومت نے اپنی کشمیر پالیسی کا حصہ بنایا چنانچہ اب حکومت کے زیراہتمام ہر سال 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منایا جاتا ہے جس میں قومی سیاسی جماعتوں سمیت پوری قوم شریک ہو کر غاصب بھارت کو یہ پیغام دیتی ہے کہ کشمیر پر اس کا تسلط بزور قائم نہیں رہ سکتا اور یواین قراردادوں کی روشنی میں استصواب کے ذریعے کشمیری عوام نے اپنے مستقبل کا تعین کرنا ہے۔کشمیری عوام نے گزشتہ 75 برس سے غاصب اور ظالم بھارتی فوج اور دوسری سیکورٹی فورسز کے جبر و تشدد اور ریاستی دہشت گردی کا سامنا کرتے کرتے ہوئے جس صبر و استقامت کے ساتھ اپنی آزادی کی طویل جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے‘ اسکی پوری دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ آزادی کی کسی تحریک میں کشمیری عوام کی طرح لاکھوں شہادتوں کے نذرانے پیش کئے گئے ہیں اور نہ عفت مآب خواتین نے اتنی بڑی تعداد میں اپنی عصمتیں گنوائیں۔ کشمیر کی آزادی کی تحریک انسانی تاریخ کی بے مثال تحریک ہے۔ یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ تقسیم ہند کے تحت مسلم اکثریتی آبادی کی بنیاد پر کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہونا تھا جبکہ قائداعظم نے کشمیر کی جغرافیائی اہمیت کے تناظر میں اسے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا اور جب اس شہ رگ پر 1948ء میں بھارت نے زبردستی اپنی فوجیں داخل کرکے تسلط جمایا تو قائداعظم نے پاکستانی فوج کے کمانڈر انچیف جنرل ڈگلس گریسی کو کشمیر پر چڑھائی کرنے کا حکم دیا لیکن جنرل گریسی نے قائداعظم کے اس حکم کی تعمیل نہ کی اور جواز یہ پیش کیا کہ وہ برطانوی افواج کے سربراہ کے تابع ہیں اور انکی اجازت کے بغیر کشمیر کی جانب پیش قدمی نہیں کر سکتے۔ اس سے یہ حقیقت مزید واضح ہو جاتی ہے کہ کشمیر کا تنازعہ بھارت اور برطانیہ کی ملی بھگت سے ہی پیدا ہوا۔پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیر کا تنازعہ پر شروع لڑائی کا تصفیہ کرانے کیلئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 12اگست 1948ء اور 5مئی 1949ء کو دو قراردادیںپاس کیں جن میں کہا گیا کہ دونوں ممالک کے مابین جنگ بندی کرکے اور کشمیر سے اپنی فوجیں نکالیں اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب کا انتظام کیا جائے۔ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیر میں جنگ بندی تو ہوگئی۔ مگرپاکستان کی تمام تر کوششوں کے باوجود بھارت میں رائے شماری سے بدک گیا اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس نے آج تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہونے دیا۔
5 اگست 2019ء میں مودی سرکار نے انتہائی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کیلئے بھارتی آئین کی دفعات 370 اور 35۔اے کو آئین سے حذف کرانے کیلئے یکایک بھارتی لوک سبھا میں بل پیش کرکے اسکی منظوری حاصل کی گئی اور پھر بھارتی راجیہ سبھا میں آئینی بل کی منظوری حاصل کرکے بھارتی صدر کے دستخطوں سے بھارتی آئین سے متذکرہ دفعات نکال کر مقبوضہ وادی کو جموں اور لداخ کے دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا اور پھر انہیں باقاعدہ بھارتی سٹیٹ یونین کا حصہ بنا دیا گیا۔بھارت کے اس اقدام پر اقوام متحدہ نے کشمیری عوام اور دنیا کو مطمئن کرنے کی غرض سے یکے بعد دیگرے تین ہنگامی اجلاس طلب کئے جس میں صرف مذمتی بیانات پر ہی اکتفا کیا گیا مگر کسی بھی عالمی ادارے یا طاقت‘ حتیٰ کہ اقوام متحدہ کی طرف سے بھی بھارت پر کسی قسم کا دبائو نہیں ڈالا گیا اور نہ ہی اس پر اقتصادی پابندیاں عائد کی گئیں جس کے خوف زدہ ہو کر بھارت کشمیر کی آئینی حیثیت بحال کرتا‘ بلکہ اس سے بھارت کے حوصلے مزید بلند ہوئے اور اب وہ مقبوضہ کشمیر سمیت بھارت میں بھی مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کررہا ہے۔
افسوسناک امر تویہ ہے کہ بھارت کی ان تمام تر بدمعاشیوں اور غنڈہ گردی کے باوجود اقوام متحدہ جیسا انسانی حقوق کا علمبردار ادارہ مشرقی تیمور کا مسئلہ تو فوری حل کروا دیتا ہے اور مسلمانوں کی رفاہی تنظیموں ، شخصیات واداروں پر فوری پابندیاں بھی لگوا دیتا ہے مگر مسئلہ کشمیر جو گزشتہ 75 سال سے حل طلب ہے جس کیلئے کشمیری عوام دنیا کے ہر عالمی فورم پر آواز بھی اٹھا رہے ہیں‘اسکے حل کیلئے اس کی طرف سے آج تک بھارت پردبائو نہیں ڈالا جارہا اور نہ ہی اسکی وادی میں جاری اسکی دہشت گردی کا نوٹس لے رہا ہے جس سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ بھارت کواقوام متحدہ سمیت عالمی طاقتوں کی آشیرباد حاصل ہے جس سے حوصلہ پا کر وہ کسی بھی دبائو کو خاطر میں نہیں لا رہا اور وہ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی درجن بھر قراردادوں کو بھی ہمیشہ سے جوتے کی نوک پر رکھتا آیا ہے۔بھارت اپنی ہٹ دھرمی سے مظلوم کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت دینے کیلئے کسی صورت تیا رنہیں ہے۔
بھارت مقبوضہ کشمیر ہی نہیں پاکستان سے ملحقہ آزاد کشمیر پر بھی نظریں جمائے بیٹھا ہے۔ عالمی بے حسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ اب آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر بھی اپنا حق جتانے لگا ہے۔ بھارتی آئین کی دفعہ 370کی روسے بھارتی یونین میں ریاست جموں وکشمیر کی ایک خصوصی حیثیت تسلیم کی گئی تھی اور دفعہ 35-Aکی رو شنی میں مہاراجہ کے سٹیٹ سبجیکٹ کے قانون کو تحفظ دیا گیا جس کی رو سے غیر ریاستی شہریوں کو قانونی طور پر نہ ریاست کی شہریت دی جا سکتی ہے‘ نہ وہ جائیداد خرید سکتے ہیں اور نہ ہی ووٹر بن سکتے ہیں مگر مودی سرکار نے کشمیر کے اسی تشخص کو ختم کرنے کیلئے بھارتی آئین کی متذکرہ شق میں ترمیم کراکے ہندو پنڈتوں کو مقبوضہ وادی میں متروکہ وقف کی املاک خریدنے اور وہاں مندر تعمیر کرنے کا حق دے دیا جس کا اصل مقصد مقبوضہ وادی کی مسلمان اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنا ہے۔ 2020ء کے اوائل میں ، حکومت نے پھر ایک نیا ڈومیسائل قانون منظور کیا ، جس سے ملک کے دیگر مقامات سے بھارتی شہریوں کو پہلی بار جموں و کشمیر کے مستقل رہائشی بننے کی اجازت دی گئی۔ مودی سرکار نے کئی دوسرے احکامات بھی جاری کئے جن کے تحت کشمیری مسلمانوں کو مقامی حکومت سے نکالا گیا اور غیر مقامی کاروباری اداروں کیلئے خطے کے وسائل کو استعمال کرنے کی راہ ہموار کی گئی۔ مقامی کشمیریوں کیخلاف آبادیاتی توازن کو منظم طریقے سے تبدیل کرکے مودی سرکار اب تک 25,000 لوگوں کو ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کی شکل میں رہائشی حقوق دے چکی ہے۔
اس وقت بھارت کشمیر اور بھارت میں جس طرح عالمی قوانین کی دھجیاں اڑا رہا ہے اور قانون نافذ کرنے والے عالمی اداروں کی مجرمانہ خاموشی اسکے مزید حوصلہ بڑھا رہی ہے تو خطے میں امن ضمانت کیسے دی جا سکتی ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی قوتیں ہیں اور جس طرح بھارت پاکستان کے ساتھ مخاصمت رکھتا ہے اور پاکستان کی سلامتی سبوتاژ کرنے کیلئے ہمہ وقت سازشوں کے تانے بانے بنتا رہتا ہے‘ اس پر اپنی آبی جارحیت بھی مسلط کئے ہوئے ہے تو کوئی بعید نہیں کہ بھارت خطے میں ایٹمی جنگ کی نوبت لے آئے۔ اس لئے بہتر ہے کہ عالمی طاقتوں بالخصوص اقوام متحدہ کو بھارت کی ان ریشہ دوانیوں کا سخت اور فوری نوٹس لینا چاہیے۔ جب تک اس پر اقتصادی پابندیاں عائد نہیں کی جاتیں اور بالخصوص عالمی نگران ادارہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) بھارت کے بلیک لسٹ پر پورا اترنے کے باوجود اسے بلیک لسٹ میں نہیں ڈالتا‘ بھارت کو راہ راست پر لانا ممکن نہیں اور نہ ہی خطے میں پائیدار امن کی ضمانت دی جا سکتی ہے۔
یوم یکجہتی ِ کشمیر منانے کا تقاضا یہی ہے کہ ہمیں ہر عالمی فورم پر مقبوضہ کشمیر کی آزادی کیلئے ٹھوس اور مؤثر آواز اٹھانی چاہیے۔ 57 مسلم ممالک کی اسلامی تعاون تنظیم (اوآئی سی) پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کیلئے اپنا مؤثر کردار ادا کرے۔ اوآئی سی بہتر انداز میں بھارت پر دبائو ڈال سکتی ہے جس طرح بھارتی جنتا پارٹی کی رہنما نورپور شرما کے پیغمبر اسلام سے متعلق متنازعہ بیان کے معاملے پر او آئی سی ممالک نے بھارت کا مکمل بائیکاٹ کیا ‘ اسکے ساتھ ہر قسم کی تجارت بند کرکے بھارت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا تھا۔