کشمیر اور پاکستان‘ یک قالب یک جان

Feb 01, 2023

حکیم سید محمد محمود سہارنپوری

 حکیمانہ …حکیم سید محمد محمود سہارنپوری
Hakimsahanpuri@gmail.com
تنازعہ کشمیر حل ہونا صرف پاکستان اور بھارت کے لیے ہی ضروری نہیں بلکہ اس مسئلہ سے جنوب ایشیائی ممالک کا  امن جڑا ہوا ہے۔ بھارتی قیادت اور ہندوستانی سیاست دانوں کو یہ سجھ لینا چاہیے کہ آج کی دنیا میں وقت گزارنے ایشو ٹالنے اور اقلیتوں کے حقوق کو نظر انداز کرنے کی پالیسی کارگر نہیں۔ سانحہ گجرات کی روشنی میں بی بی سی کی حالیہ دستاویزی فلم میں کیا سبق دکھایا گیا؟ کیوں فلم کی اشاعت سے بھارتی سرکار کے ماتھے پر پریشانی اور ہزیمت کا پسینہ بہہ رہا ہے۔ بھارتی وزیراعظم اور بھارتی وزارت خارجہ  نے  بی بی سی کی  دستاویزی فلم پر ردعمل دینے کی بجائے ہندوستان بھر میں برطانیہ کے خلاف مظاہرے شروع کر وا دئیے۔ بھارت اور بھارتی سرکار کب تک خود کو بے مقصد باتوں اور غیر ضروری ہتھکنڈوں میں مصروف رکھے گی وہ یاد رکھے کہ سچ کے سورج نے طلوع ہونا ہے اور وہ ہو کررہے گا ’’کشمیر کشمیریوں کا ہے ‘‘ 5 فروری کو کشمیر اور پاکستانی دنیا بھر میں اسی سچ کا پرچم بلند کریں گے وہ اقوام متحدہ اور بڑی طاقتوں کو یہ باور کرائیں گے کہ بھارت غاصب اور ظالم ہے جس نے وادی کشمیر کے ساتھ کشمیریوں کو دنیا کی سب سے بڑی جیل (مقبوضہ کشمیر) میں قید کررکھا ہے اور 5 اگست 2019ء کے غاصبانہ قدم نے مودی سرکار کی مکاری کو مذید آشکارہ کر دیا ۔ 1949سے آج تک بھارت نے اس قرارداد پر عمل درآمد نہیں ہونے دیا بلکہ مختلف جیلوں اور بہانوں سے اس معاملے کو ٹالتا رہا۔ چونکہ کشمیر کے متعلق اس قرارداد سے بھارت سمیت دیگر مغربی طاقتوں کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا جس کی وجہ سے وہ اس مسئلہ کے حل کے لئے ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں۔ بظاہر اقوام متحدہ ایک ادارہ ہے مگر حقیقت میں یہ مغربی طاقتوں کا بغل بچہ ہے۔ 5 فروری اقوام متحدہ سمیت عالمی امن کے دعوی دار عالمی اداروں کے ضمیر جنجھوڑنے کا دن ہے کیونکہ حق خود ارادیت کشمیریوں کا پیدائشی حق ہے۔انسان چونکہ آزاد پیدا ہوا ہے اور اس کو غلام رکھنے کا حق کسی کو بھی نہیں یہی وجہ ہے کہ آزادی کی تحریکوں کو اقوام متحدہ کے منشور میں جاری و ساری رکھنے کو بنیادی انسانی حقوق کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ یہ الگ بات کہ اقوام متحدہ مسلمانوں کے حقوق کو اکثر و بیشتر انسانوں کے حقوق نہیں سمجھتی یہی وجہ ہے کہ کروڑوں انسانوں کا بنیادی حق آزادی مسئلہ کشمیر کی صورت میں آج تک دانستہ حل نہیں کیا گیا جبکہ کشمیریوں کی تحریک آزادی خون کی ندیاں عبور کرکے آج بھی جاری و ساری ہے۔ کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو دیکھ کر ایک بات واضح ہوگئی ہے کہ مقبوضہ وادی کے ’’ کشمیریوں‘‘ کو حق آزادی سے محروم بدمعاش بھارتی فوج کے بل بوتے پر نہیں رکھا جاسکتاہے۔ پاکستانی فوج نے کشمیریوں کیلئے شہادتوں کی کئی تاریخیں رقم کی ہیں جبکہ بھارتی فوج نہتے اور بے گناہ کشمیریوں کی قاتل ہے۔ اقوام متحدہ کا دوہرا معیار اور کشمیریوں پر ہونے والے ظلم و ستم سے چشم پوشی ریاستی دہشت گردوں کی تکون بھارت،امریکہ اور اسرائیل کے دبائو کا بھیانک روپ ہے۔ قومی آزادی کی تحریکوں کے پس منظر میں دیکھیں تو بھی امریکہ اور اقوام متحدہ کا کردار واضح طور پر دوغلا نظر آتا ہے۔ مشرقی تیمور کے باسیوں نے اپنی آزادی کیلئے آواز بلند کی تو چونکہ ان کا مغرب سے مذہبی تعلق تھا اس لئے ان کی حمایت کیلئے نہ صرف یورپی برادری اٹھ کھڑی ہوئی بلکہ اقوام متحدہ نے بھی ان کا ساتھ دینے کیلئے اتنی تیزی سے اقدامات کئے کہ دنیا حیران رہ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے مشرقی تیمور کی آزاد مملکت قائم ہوگئی لیکن وادی جموں و کشمیر جس کے باشندے اپنی قومی آزادی کیلئے بھارت کی ریاستی دہشت گردی اور بھارتی افواج کے جابرانہ ہتھکنڈوں سے گزشتہ ستر برس سے نبردآزما ہیں ان کی زبوں حالی اور کسمپرسی کسی کو دکھائی نہیں دے رہی حالانکہ کشمیریوں کی تحریک آزادی تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا ہونے کے باعث بھی لائق توجہ ہے اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں بھی اس کا جلد از جلد اپنے منطقی انجام تک پہنچنا ایک ایسی ناگزیر ضرورت ہے جس کے بغیر جنوبی ایشیا میں قیام امن کا خواب کبھی پورا نہیں ہوسکتا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کا بنیادی سبب مسئلہ کشمیر ہے اور اگر اس کو حل کرنے کا کوئی راستہ نکال لیا جائے تو اس سے نہ صرف کشمیر کے کروڑوں باشندوں کی سیاسی و اقتصادی ترقی کے راستے کھل سکتے ہیں بلکہ جنوبی ایشیاء میں ترقی کے نئے باب روشن ہو سکتے ہیں۔لیکن اس حقیقت کو سمجھنے کیلئے بدمعاش بھارتی حکمران تیار ہیں نہ ہی سامراجی عزائم اور ایجنڈے والا امریکہ حتیٰ کہ عالمی برادری بھی اپنے مفادات کی سرحدوں سے آگے بڑھ کر دیکھنے کیلئے آمادہ نہیں ہے جبکہ اقوام متحدہ جس کی تشکیل دوسری جنگ عظیم کے بعد لیگ آف نیشنز کی جگہ اس لئے عمل میں لائی گئی تھی کہ وہ اپنے رکن ممالک کے درمیان پائے جانے والے باہمی تنازعات کو طے کرنے کیلئے ٹھوس اور موثر جدوجہد کرے وہ امریکی و یورپی مفادات کی اس قدر آماجگاہ بن چکی ہے کہ اس کی جانب سے کسی آزادانہ کردار کی توقعات نہیں رکھی جا سکتی ہے۔ اقوام متحدہ خاص طور پر مسئلہ فلسطین اور کشمیر کو حل کرنے میں جس بری طریقے سے ناکام ہوئی ہے اس کی وجہ سے کئی ممالک نے تو ایک نئی اقوام متحدہ کی تشکیل کیلئے آوازیں بلند کرنا شروع کردی ہیں۔ بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں کشمیریوں کے ماورائے عدالت قتل کا سلسلہ جاری ہے۔
5 فروری کے احتجاجی اور یکجہتی مظاہروں میں کشمیری اور پاکستانی اقوام متحدہ، انصاف پسند اور جمہوریت پسند طاقتوں سے یہ سوال کریں گے کہ اپریل 2022ء میں روس اور یوکرائن جنگ کا آغاز ہوا، دس ماہ کے دوران اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے کتنے ہنگامی اجلاس ہوئے جن میں روس کے خلاف اور یوکرائن کی حمایت میں قراردادیں منظور ہوئیں۔ حیرت ہے کہ اس اقوام متحدہ کی کشمیر پر منظور ہونے والی قراردادوں کو اب تک نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ کشمیری بس یہی سوال بار بار اٹھا کر دنیا کو ان کا وعدہ یاد کرائیں گے۔ہم یہاں حکومت پاکستان اور سیاسی جماعتوں کے قائدین سے یہ بھی التماس کرتے ہیں کہ خدارا بھارت کے خلاف پارلیمنٹ میں رسمی قراردادوں سے آگے بڑھیں! آخر ہم کب تک قوم کو خوش نما نعروں کا سہارا لیتے رہیں گے۔

مزیدخبریں