اب عوام نہیں نام نہاد اشرافیہ، حکمران قربانی دیں 

Feb 01, 2023

پروفیسر محمد مظہر عالم

پروفیسر محمد مظہر عالم 
پاکستان کا قیام بلاشبہ ایک سیاسی معجزہ سے کم نہیں تھا۔ ان نامساعد حالات میں جب کہ کانگرسی قیادت سے لیکر اس وقت مقتدر یعنی برطانوی حکومت بھی بعض آئینی اقدامات کی بدولت الگ وطن کے قیام کے سلسلہ میں کئی رکاوٹیں کھڑی کر رہی تھی لیکن ہمارے مخلص و نڈر قائد، حضرت قائد اعظم ، ان کے رفقاء کے عزم و ہمت کی بدولت وطن عزیز دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کے طور پر جلوہ گر ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ عوام کی بے پناہ قربانیوں کے بدلے، لاکھوں جانوں کا نذرانہ اور ہزاروں بیٹیوں کی عصمت و عفت کا نذرانہ اس کی بنیادوں میں قربان ہوا۔ اُس آزمائش بھرے دور میں جس طرح قائد اعظم چٹان جیسا عزم رکھتے تھے اسی طرح عوام میں بھی حوصلہ و ہمت موجود تھا۔ ایک اور حقیقت کہ قائد اعظم کی زندگی میں پاکستان کا سب سے پہلا بجٹ، بچت کا بجٹ تھا جس میں وسائل کو مسائل کے پیشِ نظر ترتیب دیا گیا۔ علاوہ ازیں اس وقت کے دردمند اور خلوص رکھنے والے منتظمین نے بھی آزمائشی لمحات میں ساتھ دیا۔ سادگی ، وفاشعاری اور تعمیرِ ملت کے جذبہ کے پیشِ نظر آمدن و اخراجات کو متوازن رکھا گیا۔ نتیجتاً 1953ء تک وطن عزیز مقروض نہیں تھا لیکن بدقسمتی سے ملک میں داخلی سیاست، اقتدار کی رسہ کشی اور سیاستدانوں کی بے تدبیری نے دن بدن مملکت خداداد کو مسائل میں ایسا مبتلا کیا کہ مسائل بڑھتے گئے اور وسائل کم ہوتے گئے۔ حکومتوں کی بار بار تبدیلی اور حکومتی امور میں آمرانہ مزاج کے حامل سیاستدان، اقتدار کی ہوس، آئین کا بروقت نہ بننا۔ وطن کے دونوں حصوں یعنی مشرقی اور مغربی پاکستان کے عوام میں یکجہتی کا خاتمہ جس میں عوام کا کم اور س یاسی لوگوں کا زیادہ عمل دخل تھا۔ اس میں اضافہ ، ملک میں مارشل لاء کا نفاذ، آئینی و غیر آئینی اقدامات سے نہ صرف سیاسی بلکہ معاشرتی و معاشی مسائل بھی جنم لینے لگے۔ ملکی وسائل بڑھانے کی بجائے قرضوں کا حصول اور حاصل شدہ قرضوں کو ان کے جائز مصارف کی بجائے رشوت و بدعنوانیوں نے ملکی معیشت کو تبدریج تباہ کرنا شروع کیا۔ 1971ء کے بعد ملک میں پہلی مرتبہ عوامی دور میں ترقیاتی منصوبوں کے نام پر اراکین اسمبلی کو فنڈز دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ حالانکہ ارکانِ پارلیمنٹ کا کام آئین و قانون سازی کے علاوہ ان منصوبوں میں عمل دخل بھی غیر آئینی تھا مگر کہا گیا، نتیجہ یہ نکلا کہ عوامی نمائندے مال و زر کے رسیا ہوتے گئے۔ یہ حقیقت ہے کہ ان فنڈز کی وجہ سے رشوت، کمشن اور بدعنوانی کی ایسی لت پڑی کہ آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ 
1981ء سے ملکی سیاست میں پہلی مرتبہ صنعتی و تجارتی گھرانہ کے افراد کو عوام کی مرضی کے بغیر سیاست میں داخل کیا گیا۔ جس سے معیشت دن بدن بد سے بدتر ہوتی گئی۔ غیر ملکی معاشی اداروں، دوسرے ممالک، خاص طور پر آئی ایم ایف سے بے دریغ قرضوں کا حصول ہمارے وطن کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے لگا۔ حکومتی اخراجات، پارلیمنٹ کے وہ اخراجات جن کے بغیر بھی امورِ مملکت چل سکتے تھے اس انداز سے کئے گئے کہ پاکستان کا وقار دنیا کی نظروں میں اس حد تک گِر گیا کہ ہم سے بعد میں آزاد ہونے والے ممالک بھی ترقی کرتے گئے لیکن ہم مقروض و مفلس ہوتے گئے۔ ناجائز آمدنی اور اس سے ناجائز اثاثوں کا اندرونِ و بیرون وطن سرمایہ کی منتقلی کا باعث بنا۔ ایسے ایسے تعمیراتی منصوبے بنائے گئے کہ جن کا عوام کو کم لیکن حکمرانوں کو بے پناہ مالی فائدہ ہوا۔ قریب ترین عمرانی دور میں حالت بد سے بدتر ہونے لگے۔ اس ساڑھے تین سالہ دور میں اتنے قرض لیے گئے جو گزشتہ 70 سالوں میں نہ لیے گئے۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ ہمارے اندرونی و بیرونی بدخواہ اس حد تک منفی پراپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ سیاسی و معاشی حالات ہمارے وطن کے استحکام اور سالمیت کے لیے تباہی کا باعث بن رہے ہیں اور تو اور آنے والا ہر حکمران اس بات کا متقاضی ہوتا ہے کہ عوام قربانی دیں لیکن اب عوام میں نانِ شبینہ کا حصول ناممن ہوتا جا رہا ہے۔ غربت بڑھ رہی ہے لہٰذا مقتدر طبقہ خاص طور پر طاقت رکھنے والے محب وطن لوگوں سے ایک ہی گزارش ہے کہ حقیقی معنوں میں ان تمام سیاسی و غیر سیاسی خاندانوں کا خاص طور پر 1953ء کے بعد جن کے معاشی وسائل بڑھے اور ناجائز بڑھے ان کا مواخذہ کیا جائے اور جس میں کوئی رورعایت نہ ہو۔ اب عوام نہیں سابق اور موجودہ تمام حکمران اور نام نہاد اشرافیہ کا نہ صرف احتساب ہو بلکہ ناجائز جمع شدہ دولت واپس لے کر وطنِ پاک کی آبرو اور سالمیت کو گزند نہ پہنچنے دی جائے۔ 

مزیدخبریں