جی ہاں ! پاکستان کے موجودہ انتخابی ماحول میں میدان میں جو جماعتیں ہیں اور جس قسم کے وعدے کررہی ہیں لگتا ہے ان میںسے کسی نے بھی یہ تکلیف نہیں اٹھائی کہ وہ عالمی معاملات ، عالمی معاشی صورتحال ، ملک کی قرضوںکے تلے دبے معیشت پر کوئی نگاہ ڈال لیتا تاکہ عوام کو اپنی کامیابی کی صورت میں معاملات کوآہستہ آہستہ بہتری کی طرف لے جاتا ، مگر معصوم ووٹرز جو سیاست دانوں کی لچھے دار باتیں ستر سالوں سے سن رہے ہیں اور وہ چند لمحہ سیاست دانوںکی تقریر اور انکے خود فریب نعروںکے سحر میںکھو جاتے ہیں اور بہتر مستقبل کی خواہش کو اپنے دل میں لیکر بیٹھ جاتے ہیں ، کچھ ایسے جذباتی ہوجاتے ہیں کہ اگر کوئی ان سے کہہ دے کیا یہ وعدے ان لوگوںنے پہلے بھی کیئے تھے ؟؟ وہ مخالف کی جان بھی لے لیتے ہیں یا خود جان دے دیتے ہیں اور اسے شہادت کا نام دے دیتے ہیں، الیکڑانک ، پرنٹ میڈیا کی چاندی ہے ، اشتہارات کی بھر مار ہے ، عوام کو خبریں پہنچانے کے بجائے ، انہیں صحیح راہ دکھانے کے بجائے خبروںکی جگہ کچھ اخبارات اشتہارات سے اپنا پیٹ بھر رہے ہیں خیر اب صحافت کس چڑیا کا نام ہے ؟کمائی زیادہ ضروری ہے کمرشل میڈیا کیلئے یہ بھی ان کی ضرورت ہے، یہ ان کا حق ہے ۔ یہ ہر اس ذی شعور کے سوچنے کی بات ہے یہ سیاسی جماعتیں اربوں روپے اپنی انتخابی مہم پر خرچ کررہی ہیں آج کی دنیا میں کون ہے جو ایک روپیہ بھی خرچ کرے کسی کی بھلائی کیلئے اور یہ بھی پتہ ہو کہ جیتنا ہے یا ہارنا ہے اللہ کو پتہ ؟؟ مسلم لیگ کا منشور سنا اور پڑھا ، وہاںصرف میاںنواز شریف کا خطاب ایسا تھا جو قابل تعریف تھا جس میںانہوںنے کہاکہ یہ منشور کے وعدے ہیں ہم کوشش کرینگے کہ ان پر پورا اتریں ، مگر اس میں وقت لگے گا ۔ انکی تقاریر میں زیادہ تر وقت خرچ ہوتاہے ان کی شکایتوں پر اور ان کے ساتھ عدالتوں نے بقول ان کے ظلم کیا ، باقی وہ ان کے سوالات ہوتے ہیں جن کے جواب وہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ انکے ساتھ ماضی میں یہ سب کچھ کیوںہوا ؟ عوام بیچارے اس کا کیا جواب دیں ،؟وہ توپانچ سالہ حکومت کے چار ، تین ، دو میںختم ہونے ، ان کی مرضی کی بناء اقتدار کی نشست پر براجمان ہو جانے وہ یہ تماشے گزشتہ پچاس ساٹھ سال سے دیکھ رہے ہیں عوام کو اس کا جواب دسیوں سالوں سے نہیں مل۔ا میاں صاحب اپنے پانچ ، دس سالوں کا حساب پوچھ رہے ہیں او ر شکایت کر رہے ہیں ۔ میاں صاحب کی مسلسل شکایتوں اور پوشیدہ ہاتھوں کی تلاش کی وجہ سے پی پی پی کے ازخود وزیر اعظم کی آس لگائے بلاول زرداری ہیں وہ نہ جانے کس کو پیغام دے رہے ہیں کہ میںکسی سے کوئی بدلہ نہیں لونگا۔ پوری انتخابی مہم میں بلاول ذرداری سابقہ کپتان حکومت کے کپتان کی یاد تازہ کر رہے ہیں جو چور چور کے الفاظ سے اپنی تقریر کی ابتداء کرتے تھے اور انہیں الفاظ پر تقریر کا اختتام کرتے تھے، نونی مسلم لیگ کی جانب سے کبھی یہ زبان استعمال نہیں کی گئی جو ایک خاندانی عزت و احترام کی تربیت کا پتہ دیتی ہے ۔اگر مسلم لیگ ن شیخ رشید کو اپنی جماعت میںلے لیتی تو وہ ضرور بلاول بھٹو کے خلاف انتخاب لٹرتے اور تقاریر بھی مزے دار ہوتیں۔ ہمارے ملک کے قوانین بھی شاندار ہیں جہاں دہشت گردوںکو بھی انتخاب لڑنے کی اجازت ہے ، پہلے ملک دشمنی کے الزامات لگتے تھے وہ سیاسی ہوتے تھے جس کا کوئی واضح ثبوت نہیں ہوتا تھا ، مگر 9مئی کے صوتی اور ویڈیوز کے ثبوت ہیں جو واضح ہیں کہ کس طرح عسکری اداروں ، عسکری عہدیداران کی رہائش گاہوںکو تباہ کیا گیا اور دنیا کو تماشہ بنا دیا گیا ، امریکی خط اور دوست ملک کے تحائف کو سستے داموں فروخت کا تماشہ بنایا گیا نتیجے کے طور پر گرفتاریاںہوئیں، اگر وہ دہشت گرد واقعی تھے ا ور میری دانست اور سچائی کے ساتھ وہ دہشت گرد ہی تھے جن کے ذہنوں میں گند بھر دیا گیا تھا۔ عسکری اداروں اور شخصیات کے متعلق اور اس میں دورائے نہیں مگر پھر وہ انتخابات میں کیوں موجود؟؟؟ کیا پھر اسمبلیوں میں دہشت گرد بیٹھ جائینگے ؟؟ کوئی تو فیصلہ کرے کہ ان کی بطو دہشت گرد گرفتاری، رہائی ، پریس کانفرنس کرکے اپنے آپ کو معصوم کہلانا ،خاص طور وہ لوگ جو آج بھی عسکری اداروں اور شخصیات کے حوالے سے اپنی ہٹ دھرمی کا شکار ہیں، ان کی رہائی، انتخابات میں ان کے کاغذات کا جمع ہونا ، کاغذات مسترد ہونا پھر عدالتی حکم سے دوبارہ کاغذات کا جمع ہونا ایک عجیب تماشہ ہے۔ چونکہ عوام ناخواندہ ہے ان میں سے کچھ جیت بھی جائیں، عوام تحریک انصاف کے ملک اور ملک سے باہر بیٹھے سوشل میڈیا سے متاثر جہاں جھوٹ کا راج ہے مگر کوئی یہ بتائے کہ جبکہ وہ تمام تر کھلی آنکھوں کے ذریعے دہشت گردی میں ملوث پائے گئے تو اس ملک میں انہیں انتخاب لڑنے کا کیا حق ہے ؟؟ آزادی اظہار ، انسانی حقوق اگر اسی طرح ہیں تو محب وطن تو یہ کہے گا کہ ’’بھاڑ میں جائے ایسا آزادی اظہار جس میں ملک کی اساس کو نقصان ہو ، عالمی منظر نامے پر پاکستان ایک کمزور اور مشکوک عدلیہ کے لئے شہرت رکھے یہ سب کچھ اسی ملک دشمن سوشل میڈیا کی کارستانی ہے ۔ اب صورتحال یہ ہے کہ انتخابات کی طرف تمام سیاست دان بھر پور انداز میں میدان میں آگئے ہیں۔ آٹھ فروری کو اللہ خیریت سے انتخابات کرادے ،پاکستانی سیاست کامشہور ڈرامہ ’’ہار س ٹریڈنگ ‘‘ اپنے عروج پر انتخابات کے نتائج کے ساتھ ہی شروع ہوجائے گا جوآزاد جیت گئے اپنی گردن میں گناہوں کا طوق یعنی اپنی قیمتیںلگائے بھی میدان میں ہونگے ، پہلے صرف جہانگیر ترین کا جہاز تھا اب علیم خان کا جہاز بھی ’’محب وطن اور ایماندار ‘‘ لوگو ںاکٹھا کررہا ہوگا ۔سیاست دانوںنے اتنے خوبصورت وعدے ، نہائت ہی سفاکی سے جھوٹ بول کر عوام جنہیں ملکی حالات مہنگائی ،بے روزگاری کی وجہ سے انتخابات میں کوئی خاص دلچسپی نہیں، ان سیاست دانوںنے اپنے خوش کن وعدوںسے عوام کو سنہرے سے بھی زیادہ خوبصورت پاکستان بتانے کی کوشش کی ہے ، اگر ان سیاست دانوںکے دعوے سے کسی بھی جماعت کے بیس فیصد وعدوں کو وہ اقتدار میں آکر عملی جامہ پہنادیں تو فرور ی ختم ہونے سے قبل ہی یہ ملک جنت بن جائے گا ۔ ادھر ووٹروںکا حال کچھ اس طرح ہے کہ کڑاکے کی سردی اور گہری دھند کے عمیق اندھیر میں عوام ٹھٹھر گئے ہیں۔جاڑے کے مارے لوگ گھروں میں دبکے اُپلے جلا کر سیاست سے بیزاری کا اظہار کررہے ہیں۔عوام کے جو حالات ہیں وہ بہت ہی رونگٹے کھڑے کردینے والے ہیں۔ پینے کا صاف پانی ہے، نہ نکاسی آب، روزگار ہے نہ خوشحالی، تقریباً ساٹھ فیصد لوگ خط غربت تلے زندگی گزار رہے ہیں۔ انہیں دلچسپی ہے تو صرف اپنے اپنے مسئلوں سے جو میونسپل حکومتوں کے دائرہ کار میں آتے ہیں جنہیں پنپنے ہی نہیں دیا گیا۔ پی پی پی کو شائد پنجاب کا خیال بہت تاخیر سے آیا ، انکی جانب سے پنجاب میں ووٹرز کو اپنی طرف راغب کرنا مشکل ہے کیونکہ پنجاب میں دیر سے انٹری ڈالی ہے، وہ بھی الیکٹ ایبلز کے محدود حلقوں میں۔ بقیہ شائد انہوں نے سوچ رکھا ہے کہ ’’ایک زداری سب پہ بھاری والا ، سینٹ کا فارمولہ استعمال ہوگا اور آزاد جیتے ہوئے افراد کا بینک بلینس بڑھے گا ، چونکہ پی پی پی کو تحریک انصاف سے امید تھی مگر وہاں سے ہتک آمیز قسم کا بیان آیا ہے بھی سرخ جھنڈی دکھادی ۔ مجموعی طور پہ یوں لگتا ہے کہ ن لیگ پنجاب میں حاوی رہے گی کہ اس کی بڑی حریف جماعت پی ٹی آئی کو دیوار میں چُن دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے انتخابی مہم میں کوئی زیادہ جوش و خروش نظر نہیں آرہا۔ گہما گہمی سندھ اور پختون خوا میں ہے۔ بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت اس وقت ملک کے حقیقی مسائل پر بات نہیں کرتی۔ ملک کا قابل جوان اور پڑھا لکھا ذہن،جو ملک چھوڑنے کی بات کرتا ہے اور پچھلے چند سال اور خاص کر گزشتہ چند ماہ میں مخیر حضرات اپنا پیسہ ملک سے باہر بھیج چکے ہیں ؟؟ ہمارے سیاستدان شاید یہ نہیں جانتے ہونگے ۔
عوام کو بے وقوف بنانے کے دلفریب نعرے
Feb 01, 2024