’’پتھر پر لکیر‘‘ قومی انتخابات میں اب صرف 8 دن باقی رہ گئے ہیں۔ قومی تناظر میں ان آٹھ دنوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بات عیاں ہے کہ 76 سالہ اسلامی جمہوریہ پاکستان جس بے یقینی‘ احساس محرومی اور معاشی و اقتصادی مسائل سے آج دوچار ہے‘ ماضی میں ایسا بہت کم دیکھنے کو ملا ہے۔ اپنے جذبہ حق رائے دہی کیلئے قوم گو خوشی کا اظہار کرتی نظر آرہی ہے مگر مجموعی طور پر اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے والے ووٹروں میں وہ جذبہ اور پھڑک نظر نہیں آرہی جسے جمہوریت کا بنیادی حسن کہا جاتا ہے۔ الیکشن کا ماحول بلاشبہ بن چکا ہے‘ گلیوں‘ محلوں میں پسندیدہ پارٹیوں اور لیڈروں کے پوسٹرز‘ بریانی‘ مرغ پلائو‘ ست رنگیا چاول‘ رس گلے‘ رس ملائی‘ چھوٹے بکروں کے پائے اور دودھ چائے پتی سے ووٹروں کی تواضع کے سلسلہ کا بھی آغاز ہو چکا ہے۔ ہر ووٹر کی اب یہ بنیادی خواہش ہے کہ مذکورہ 8 دنوں کا ہر لمحہ اپنے پارٹی امیدواروں کے ہمراہ وہ اس انداز میں گزارے کہ کامیابی کے بعد لیڈر اسکی دی گئی قربانیوں کو کسی بھی موقع پر نہ بھلا پائے۔ ہر جانب جمہوریت کے بازار تو سجے نظر آرہے ہیںمگر افسوس! ان بازاروں میں تحریک انصاف کے خریداروں کی تعداد نظر نہیں آرہی جو انتخابی سرگرمیوں کے اس موقع پر ہونا ناگزیر تھی۔ 9 مئی کے حوالے سے پیدا شدہ ’’سیاسی کھلار‘‘ ہی وہ بنیادی وجہ ہے جس کی وجہ سے تحریک انصاف کے امیدوار اور باقی سابق وزیراعظم عمران خان آئندہ آٹھ دنوں تک لگے انتخابی بازار سے اپنی پارٹی کیلئے کچھ بھی حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو پائیں گے۔ ہماری سیاست کا یہی افسوسناک پہلو ہے کہ ’’سیاسی مفاہمت‘‘ پر ہمارے سیاست دان ذاتی مخاصمت اور مفاداتی عمل کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ لیول پلینگ فیلڈ کا جب فیصلہ ہو چکا تو پھر میدان میں دیگر سیاسی پارٹیوں کے ہمراہ تحریک انصاف کو برابری کی سطح پر کھیلنے کا موقع کیوں فراہم نہیں کیا جا رہا؟ یہ ہے وہ بنیادی سوال جو غیر بھی پوچھنے پر مجبور ہیں۔
تحریک انصاف کا بلا چھن چکا‘ پارٹی لیڈر شپ کو دس دس سال قید کی سزا دے کر پابند سلاسل اور آئوٹ آف الیکشن کر دیا گیا‘ اب دفعہ 144 کا نفاذ مبینہ طور پر اس بات کا ثبوت ہے کہ تحریک انصاف کے امیدواروں کو مزید ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔ مثبت پہلو یہ ہے کہ بلے کے انتخابی انشان سے محروم ہونے کے باوجود بانی تحریک انصاف عمران خان نے انتخابات کا بائیکاٹ کا اعلان نہیں کیا جو انکی سیاسی پختہ سوچ کا عکاس ہے۔ اب تک کی پیشین گوئیوں اور نجومیوں کے حساب کتاب کے مطابق مسلم لیگ (ن) مبینہ طور پر یہ انتخابات جیت چکی ہے جبکہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری پرعزم ہیں کہ نوازشریف کا چوتھی مرتبہ وزیراعظم بننے کا خواب وہ ہرگز پورا نہیں ہونے دینگے۔
اب یہ بات بھی حیرت سے کم نہیں کہ سابق گورنر پنجاب مسلم لیگ قاف‘ پنجاب کے صدر اور مرکزی چیف آرگنائزر چودھری محمد سرور جنہوں نے اس مرتبہ انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کر رکھا ہے‘ پیپلزپارٹی کے چیئرمین مسٹر بلاول بھٹو زرداری کی لاہور میں جاری انتخابی مہم کو ہر حال میں کامیاب کرانے کیلئے میدان عمل میں اتر چکے ہیں۔ ایسا اچانک فیصلہ انہوں نے کیوں کیا؟ بتا رہے تھے کہ بلاول ماشاء اللہ نوجوان ہیں‘ عوام اور بالخصوص نوجوانوں کے بنیادی مسائل سے آگاہ ہیں‘ وہ چاہتے ہیں کہ ان مسائل کا مداوا کریں۔ انکے والد زرداری صاحب سے بھی اس سلسلہ میں ملاقات ہو چکی ہے اس لئے بلاول کی کامیابی کیلئے میدان میں اترا ہوں۔
چودھری سرور صاحب برطانوی دارالامراء چھوڑنے کے بعد پاکستانی سیاست میں ایسے متحرک ہوئے کہ دو مرتبہ گورنری حاصل کرنے کے باوجود مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف سے ان کا سیاسی مزاج نہیں مل سکا اور یوں انہوں نے مسلم لیگ قاف کا انتخاب کرلیا۔ مگر اب ان کا رجحان انکی دیرینہ پارٹی کی جانب ہوتا نظر آرہا ہے۔ آپ دیرینہ پارٹی پر شاید حیران ہوں مگر حیرانگی کی بات اس لئے بھی نہیں کہ بھٹو مرحوم اور شہید بے نظیر بھٹو صاحبہ کے ادوار میں چودھری صاحب سکاٹ لینڈ میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔ ممکن ہے چودھری صاحب اپنی پرانی سیاسی یادیں پھر تازہ کرنا چاہتے ہوں۔
کالم چونکہ 9 سو الفاظ تک محدود ہے اس لئے کوشش ہے کہ سیاسی حوالے سے مختصر بات کی جا سکے۔ مسلم لیگ (ن) نے صوبائی اور قومی اسمبلیوں کیلئے اس بار ٹکٹیں جن امیدواروں دی ہیں‘ ان میں بعض دیرینہ مسلم لیگی کارکنان شاید میرٹ پر پورا نہیں اتر پائے کہ مسلم لیگ (نون) نے ’’میرٹ‘‘ کو مبینہ طور پر اس مرتبہ سرفہرست رکھا ہے جس کے تحت درجنوں دیرینہ کارکنان کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔ ایسے کارکنان میں ملک کے تین مرتبہ وزیراعظم محمد نوازشریف کے انتہائی معتمد ساتھی پنجاب کے متعدد بار وزیر اور پارلیمانی سیکرٹری رہنے والے گوجر خان کے ممتاز مسلم لیگی رہنماء چودھری محمد ریاض کو بھی ٹکٹ نہیں دیا گیا۔ ایسا کیوں ہوا؟ بدستور ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ چودھری ریاض کی مسلم لیگ (ن) سے وفاداری کئی سالوں پر محیط ہے جس سے انکے حلقہ کے عوام کو بھی گہرا دکھ پہنچا ہے چنانچہ حلقہ کے پرزور اصرار پر اب وہ تحریک لبیک کے پلیٹ فارم سے انتخاب لڑنے جا رہے ہیں۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ضیاء) کے سربراہ محمد اعجازالحق کی انتخابی مہم زوروں پر ہے جبکہ شہر اقبال سے محترمہ ریحانہ ڈار اپنی انتخابی مہم کا کامیابی سے آغاز کر چکی ہیں۔ ادھر بیشتر سیاسی پارٹیاں اب اپنے منشور کا اعلان بھی کر چکی ہیں جن میں کامیابی کی صورت میں حلقہ اور عوام کو ترقیاتی فنڈز کی فراہمی‘ تعلیم‘ صحت‘ صاف پانی‘ رشوت کا خاتمہ‘ اور علاقوں میں کھیلوں کے میدان مہیا کرنا ہے۔ معاملہ چونکہ ووٹروں کو سہانے خواب دکھانا اور انکے بنیادی مسائل کی نبض پر ہاتھ رکھنا بھی ہے‘ اس لئے بعض پارٹیوں نے اپنے منشور میں دو سے تین سو یونٹ مفت بجلی دینے کو بھی شامل کرلیا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ مقروض ملک جو پہلے ہی عدم معاشی و اقتصادی استحکام کا شکار ہے‘ مفت بجلی فراہم نہیں کر پائے گا۔ اسے کہتے ہیں سہانا خواب۔