اب سے تقریباً دو دہائیاں قبل ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کی تشکیل کا مقصد یہ تھا کہ اس ادارے کے ذریعے ملک بھر میں اعلیٰ تعلیم کو فروغ دیا جائے اور اس سلسلے میں پیدا ہونے والی رکاوٹیں جنھیں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) نامی ادارہ بوجوہ حل نہیں کرسکتا تھا، انھیں ایچ ای سی حل کرے۔ ایچ ای سی نے کئی منصوبے شروع کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش بھی کی کہ وہ واقعی ان دونوں مقاصد کو پورا کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کررہا ہے۔ اس سب کے باوجود یہ ایک افسوس ناک امر ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے راہ میں سب سے زیادہ رکاوٹیں ایچ ای سی کی طرف سے ہی پیدا کی جارہی ہیں اور اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اس ادارے کا نظام بیوروکریٹک ہے، لہٰذا ایچ ای سی کے دفتروں میں بیٹھے بابو لوگ یہ زحمت ہی گوارا نہیں کرتے کہ وہ ان مسائل پر توجہ دیں جن کو حل کرنے کے لیے ہی ان کا تقرر عمل میں لایا گیا ہے۔
اسی مؤقر جریدے میں ’ایچ سی سی کا ڈگریوں کی تصدیق کا نظام‘ کے عنوان سے ایک کالم 7 دسمبر 2023ء کو شائع ہوا تھا جس میں ان مسائل پر بات کی گئی تھی جو ایچ ای سی کے نظام میں پائے جاتے ہیں۔ ادارے کے ذمہ داران نے شاید اس کالم کو پڑھنے کے بعد ہی یہ فیصلہ کیا کہ مسائل حل کیے بغیر لوگوں کے منہ بند کرنے کے لیے اپنے آنلائن سسٹم میں کچھ تبدیلی کردی جائے، لہٰذا اس کالم میں جس شکایت (نمبر 2091780) کے چار مہینے کا عرصہ گزرنے کے باوجود حل نہ ہونے کا ذکر کیا گیا تھا اسے فوری طور پر نمٹا دیا گیا لیکن اس سے مسئلے کا صرف ایک حوالہ ٹھیک ہوا اور دیگر پہلو ایسے ہی چھوڑ دیے گئے۔ وہ مسئلہ جس سے متعلق مذکورہ شکایت درج کرائی گئی تھی کسی ایک شخص کا نہیں بلکہ ملک بھر میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے ہزاروں ایسے افراد کا ہے جنھیں ایچ ای سی کے نظام کی وجہ سے پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ان پریشانیوں کے ازالے کے لیے ایچ ای سی نے ایک ویب سائٹ تو بنا رکھی ہے جس پر مختلف مسائل سے متعلق شکایات درج کرائی جاسکتی ہیں لیکن اس پر درج کرائی جانے والی شکایتوں کا ازالہ ہوتا کبھی نہیں ہے۔ مذکورہ کالم میں جب اسی مسئلے کی نشان دہی کی گئی تو اس کے بعد سے ایچ ای سی نے اپنی ویب سائٹ پر شکایات کے نظام میں کچھ تبدیلی یہ کردی اور اب جب آپ اس پر کوئی شکایت درج کراتے ہیں تو ادارے کا عملہ اسے دیکھنے یا پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا بلکہ ایک خودکار نظام کے ذریعے درخواست بند کردی جاتی ہے اور آپ کو ایک رٹا رٹایا جواب مل جاتا ہے جو درج ذیل ہے:
Dear applicant, please confirm the regional center (i.e Lahore, Peshawar, Quetta, Karachi or Islamabad) where you've applied for attestation or mention your complete application ID so the concerned department can look into it accordingly. Please give reference of this ticket in your new ticket. Thank you
ایچ ای سی کا نظام کتنا اچھا ہے اس کا اندازہ اس ایک مثال سے ہی لگا لیجیے کہ ادارے کی ویب سائٹ پر 15 دسمبر 2023ء کو پی ای ڈی کی ایک ڈگری کی بنیادی جانچ پڑتال کے لیے درخواست (نمبر 2252945) دی گئی۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ چند روز میں بنیادی جانچ پڑتال مکمل کر کے جواب دیدیا جاتا تاکہ ڈگری کا حامل شخص اس کی تصدیق کے لیے دیگر مراحل طے کرتا لیکن تب سے اب تک، یعنی ڈیڑھ مہینے میں، بنیادی جانچ پڑتال مکمل نہیں ہوئی۔ اس سلسلے میں یکے بعد دیگرے ایچ ای سی کی ویب سائٹ پر دو مرتبہ شکایت درج کرائی گئی (8 جنوری کو شکایت نمبر 2311593 اور 10 جنوری کو شکایت نمبر 2316827) اور دونوں بار شکایت میں واضح طور پر لکھا گیا کہ بنیادی جانچ پڑتال کے لیے آنلائن درخواست دی گئی تھی جس کا تاحال کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ شکایت کے ساتھ مذکورہ درخواست والے صفحے کی تصویر بھی لگا دی گئی لیکن دونوں بار وہی جواب ملا جو اوپر درج ہے۔
ایچ ای سی وفاقی حکومت کا قائم کردہ ایک سرکاری ادارہ ہے جس پر قومی وسائل خرچ ہوتے ہیں۔ اس ادارے کو مخصوص مقاصد کے تحت قائم کیا گیا تھا اور اس میں موجود افسران و اہلکاران کو انھی مقاصد کو پورا کرنے کے لیے بھرتی کیا جاتا ہے۔ ڈگری کی تصدیق کے ضمن میں دی گئی مذکورہ مثال سے واضح ہوتا ہے کہ ایچ ای سی کے افسران و اہلکاران اپنے فرائض اس طرح ادا کررہے جیسے کہ انھیں ادا کیا جانا چاہیے۔ اگر اس ادارے کے وابستگان نے اعلیٰ تعلیم کی راہ میں روڑے اٹکانے ہیں تو بہتر ہے کہ اس ادارے کی تشکیلِ نو کی جائے اور اسے صرف وفاقی حکومت کے تعلیمی اداروں کے معاملات تک محدود کردیا جائے۔ اٹھارھویں ترمیم کے بعد سے تعلیمی معاملات ویسے بھی صوبوں کے اختیار میں ہیں تو کیوں نہ صوبوں میں موجود اعلیٰ تعلیم کے اداروں سے جڑے ہوئے تمام معاملات صوبائی ایچ ای سیز کے سپرد کردیے جائیں تاکہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے افراد ان پریشانیوں سے بچ سکیں جو وفاقی ایچ ای سی کے نظام کی خرابیوں کی وجہ سے پیدا ہورہی ہیں؟
ہائر ایجوکیشن کمیشن کی پیدا کردہ رکاوٹیں
Feb 01, 2024