پاکستان میں کرپشن کم ہوئی ہے۔ ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کی رپورٹ۔
اس رپورٹ پر جہاں خوشی ہو رہی ہے وہاں حیرت بھی ہو رہی ہے کہ یہ ’’چمتکار‘‘ کیسے ہو گیا۔ یہ ایک ڈیڑھ سال میں کونسی ایسی ہوا چلی ہے کہ ہم عالمی کرپٹ ممالک کے انڈیکس میں دو پوائنٹ بہتری کی طرف چلے گئے ہیں ورنہ ہمارے ہاں تو قدم قدم پر کرپشن کے دیوتا آسن جمائے بیٹھے ہیں اور ببانگ دہل یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ
ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں
جسے غرور ہو آ ئے کرے شکار مجھے۔
یہ کوئی مذاق نہیں حقیقت ہے۔ جن کرپٹ لوگوں کو پکڑا گیا جن کے گھروں کے تہہ خانوں سے پانی کی ٹینکیوں سے قالینوں کے نیچے سے صندوقوں سے ڈالرز، پائونڈز ریالوں اور روپوں کے پہاڑ برآمد ہوئے، زیورات کے خزانے ملے ان میں سے کوئی ایک بھی ابھی تک نشان عبرت نہیں بنا۔ آج بھی وہ عیش کر رہے ہیں۔ پھر بھی یہ ترقی کیسی۔ رپورٹ میں حیرت اس بات پر بھی ہوئی کہ جو جماعت (پی ٹی آئی) اپنے دور میں سب سے زیادہ کرپشن کے خلاف شور مچاتی رہی اس کے دور میں کرپشن نے ز یادہ فروغ پایا۔ ہے ناں حیرت کی بات۔ یہ تو اس جماعت نے چور مچائے شور والا محاورہ درست کر دکھایا۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ ڈیڑھ برس سے کرپشن کی شرح کم ہوئی ہے۔ یعنی پی ڈی ایم والوں نے بہتر کارکردگی دکھائی…یہ رپورٹ کہہ رہی ہے آگے اللہ جانے سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے۔
٭٭٭٭٭
ہالینڈ میں 177 مرتبہ کھانا کھا کربنا بل دیئے بھاگنے والا چور گرفتار
ہالینڈ والوں نے تو اس ماہر چور کو بدنام زمانہ قزاق کا خطاب دیا ہے جو مختلف ہوٹلوں سے کھانا کھانے کے بعد نہایت مہارت سے بل ادا کیے بنا ہی فرار ہو جاتا تھا یوں وہ اپنی پیٹ پوجا کے ساتھ اپنی جیب پوجا کا فریضہ بھی عمدہ طریقے سے انجام دے رہا تھا۔ مگر بکرے کی ماں کہہ لیں یا قزاق کی ماں کب تک خیر مناتی۔ بالآخر اسے پولیس نے 177 ویں واردات کے بعد پکڑ ہی لیا۔ اب خدا جانے وہ بل کہاں سے ادا کرے گا۔ اگر پیسے والا ہوتا تو چوری سے کھا کر بھاگتا ہی کیوں۔ اگر شوقیہ قزاق تھا تو اب اسے لینے کے دینے پڑیں گے۔ یورپ میں عدالت والے غریب اور بھوکے پر ترس کھا کر اسے رعایت دیتے ہیں مگر فنکاری کرنے والے، مہارت دکھانے والے کو سزا بھی دیتی ہے۔ اس طرح کاش ہمارے ہاں بھی ہو جائے تو یہ جو غنڈہ عناصر وردی میں ہوں یا بنا وردی کے۔ ہوٹلوں سے ریڑھی والوں سے مفت کھانا پینا پھل وغیرہ لے کر کھاتے ہیں اور رعب جما کر بل ادا کیے بغیر چلے جاتے ہیں، کم از کم ان کو لگام ڈالی جا سکے گی۔ ورنہ 177 ایسی وارداتیں یعنی بنا بل دئیے کھانا پینا حلال کر کے چلے جانے والے قزاق تو ہر شہر میں ملیں گے۔
غریب دکاندار ہوٹل والے اور ریڑھی والے خاموشی سے یہ سب جان کر بھی کچھ نہیں کر پاتے کیونکہ یہ قزاق اس فعل کو یعنی قزاقی کو اپنا حق سمجھتے ہیں اور ڈکار مار کر مونچھوں پر تائو دیتے ہوئے یا پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے نکل جاتے ہیں اور متاثرہ فریق ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
مسلم لیگ نون کے ساتھ چلنا اب ممکن نہیں۔ بلاول کا جلسہ سے خطاب
اب ایسی کون سی قیامت ٹوٹ پڑی ہے کہ بلاول کا نون لیگ کے ساتھ چلنا ممکن نہیں رہا۔ جو گزشتہ ڈیڑھ سال ان کے ساتھ مل کر حکومت کے مزے اڑاتے رہے تب یہ خیال کیوں نہ آیا۔ وزیر خارجہ بن کر دنیا بھر میں سیر سپاٹے کرتے رہے اور ناکامی کا سارا ملبہ نون لیگ پر ڈالا جا رہا ہے۔ یہ سب ہماری سیاست کے کرشمے ہیں۔ پل بھر میں جگری دوست جانی دشمن بن جاتے ہیں۔ اتحادیوں میں لاکھوں خامیاں نظر آنے لگتی ہیں۔ یوں ’’میں بے وفا کسی اور کے ساجن کی سہیلی ہو گئی‘‘ کا عملی مظاہرہ عوام دیکھتے ہیں اور ’’محوحیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی‘‘ کا جاپ کرتے ہوئے ان سیاسی بازیگروں کی قلابازیوں پر عش عش کر اٹھتے ہیں۔ بلاول کے والد محترم نے بھی میاں نواز شریف کو مغرور کہا ہے۔ کیا پہلے وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ میاں نواز شریف کو ان کی شاہانہ طبیعت کی وجہ سے مغل اعظم کہا جاتا تھا۔ گزشتہ روز ایک جلسے میں بلال یٰسین نے فرطِ جذبات میں آ کر یا میاں جی کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ان کے ہاتھ کا بوسہ لیا تو میاں جی نے سٹیج پر ہی اپنا ہاھ ان کی جیکٹ سے صاف کرتے ہوئے نیچے کر لیا۔ نواز شریف کے اس شاہی انداز کے باوجود لوگ شاید ان کی معصوم صورت کی وجہ سے ان سے محبت کرتے ہیں۔ کاروباری اور صنعتکار طبقہ ان کی کاروباری مہارت کی وجہ سے ان سے متاثر نظر آتا ہے۔ ورنہ اشرافیہ میں تو زرداری خاندان بھی شامل ہے اور پیپلز پارٹی کے تمام عہدیدار بھی۔
٭٭٭٭٭
جمعرات، 20 رجب المرجب ، 1445ھ،یکم فروری2024ء
Feb 01, 2024