ملتان سمیت پورے جنوبی پنجاب میں انتخابی مہم عروج پر پہنچ گئی ہے عام انتخابات کے انعقاد میں اب صرف ایک ہفتہ باقی رہ گیا ہے سیاسی جماعتوں کی جانب سے اپنی اپنی انتخابی مہم کے سلسلے میں ملک کے مختلف شہروں میں جلسے جلوسوں اور ریلیوں کا انعقاد جاری ہے امیدواران اپنی اپنے حلقوں میں انتخابی مہم میں مصروف دکھائی دیتے ہیں ملتان میں پاکستان پیپلز پارٹی نے جلسے کا انعقاد کرتے ہوئے پاور شو کا مظاہرہ کیا جبکہ پاکستان مسلم لیگ نون کی جانب سے تاحال ملتان میں کوئی انتخابی جلسہ کیا گیا ہے اور نہ ہی ملتان کو سیاسی جلسوں کی شیڈول میں شامل کیا گیا جبکہ جنوبی پنجاب کے دیگر شہروں میں بورے والا ، وہاڑی ، بہاولپور ، راجن پور ، خانیوال میں بڑے جلسوں کا انعقاد کر کے سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا گیا ہے اس بار ملتان میں انتخابی جلسہ منعقد نہ کرنے پر لیگی کارکن میں اضطراب پایا جاتا ہے اسکی ایک وجہ پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب سے ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے پر لیگی کارکنوں اور عہدیداران میں شدید دھڑے بندی بھی ہوسکتی ہے اور پارٹی ٹکٹ نہ ملنے پر ملتان سے سابق اراکین اسمبلی اور سنیٹرز کے ایک بااثر گروپ نے مسلم لیگ ن کو خیرباد کہہ کر ناصرف پاکستان پیپلزپارٹی جوائن کرلی بلکہ پی پی پی کے ٹکٹ پر ملتان شہر کے مختلف حلقوں سے بطور امیدوار میدان میں آگئے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے مختلف حلقوں کے انتخابی دنگل کا جائزہ لیا جائے تو اس بار ماضی کے حلیف حریف بن چکے ہیں اور بڑے بڑے سیاسی خاندان ایک بار پھر انتخابی میدان میں پنجہ آزمائی میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔
ملتان سے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی حلقہ این اے 148 ملتان۔1 سے اْمیدوار ہیں ان کے مدمقابل پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار ملک احمد حسن ڈیہڑ اور پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد اْمیدوار ملک تیمور الطاف مہے ہیں۔ این اے 149 ملتان۔2 سے استحکام پاکستان پارٹی کے سربراہ جہانگیر خان ترین مسلم لیگ ن کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کیساتھ میدان میں ہیں ان کے مد مقابل پاکستان تحریک انصاف کے سابق رکن قومی اسمبلی کے آزاد اْمیدوار ملک عامر ڈوگر ہیں۔ این اے 150 ملتان۔3 میں پاکستان مسلم لیگ ن سے پی ٹی آئی چھوڑ کر مسلم لیگ ن جوائن کرنے والے سابق ایم پی اے جاوید انصاری کو میدان میں اتارا ہے جس پر مسلم لیگ (ن) کے سابق رکن اسمبلی و سینیٹر رانا محمود الحسن پاکستان پیپلز پارٹی جوائن کرتے ہوئے میدان میں ہیں جبکہ اس حلقہ سے سابق رکن قومی اسمبلی رہنما پی ٹی آئی مخدوم شاہ محمود قریشی کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہ ملنے پر اس بار ان کے صاحبز ادے مخدوم زین قریشی بطور آزاد اْمیدوار الیکشن لڑ رہے ہیں اسی طرح این اے 151 ملتان۔4 میں پاکستان مسلم لیگ ن کے اْمیدوار ملک عبدالغفار ڈوگر ، پاکستان پیپلز پارٹی کے اْمیدوار سید علی موسیٰ گیلانی اور پاکستان تحریک انصاف کی حمایت یافتہ آزاد اْمیدوار مہر بانو قریشی کے درمیان مقابلہ ہے۔ این اے 152 ملتان۔5 سے پاکستان مسلم لیگ ن کے اْمیدوار جاوید علی شاہ پاکستان پیپلز پارٹی کے اْمیدوار سید عبدالقادر گیلانی اور پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ عمران شوکت خان کے درمیان مقابلہ ہوگا۔
اسی طرح این اے 153 ملتان۔6 سے مسلم لیگ ن کے اْمیدوار رانا قاسم نون تحریک انصای کی حمایت یافتہ امیدوار ڈاکٹر ریاض لانگ آزاد اْمیدوار قاسم لنگاہ کے درمیان مقابلہ ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے عام انتخابات 2018ء کی نسبت ملتان شہر کے بیشتر حلقوں میں مضبوط اْمیدواران میدان میں اتارے ہیں اور پی پی پی نے ملتان کو بھی فوکس کیا ہے کیونکہ سابقہ انتخابات میں پی پی پی گیلانی خاندان کے علاوہ ملتان شہر کی بیشتر حلقوں کو خالی چھوڑ دیا کرتی تھی مگر اس بار پاکستان پیپلز پارٹی ملتان سمیت جنوبی پنجاب کے متعدد حلقوں میں بھر پور انداز میں اسی میدان میں موجود ہے۔ شاید پی پی پی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری اور شریک چیئر مین آصف علی زرداری کو ادراک ہے کہ خطہ جنوبی پنجاب میں وفاقی کی سطح پر ملکی سیاست میں اہم کردار ہوتا ہے۔ جنوبی پنجاب کی سیاست اور سیاستدانوں کا کردار اقتدار کی سیڑھیاں طے کرنے میں نمایاں رہتا ہے جیسا کہ عام انتخابات 2018ء میں جنوبی پنجاب اتحاد تشکیل دیکر وفاق کے ساتھ ساتھ پنجاب میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت بنانے کی راہ ہموار کی گئی۔ اس بار بھی اس خطے کے الیکٹیبلز حکومت سازی میں اہم کردار ادا کریں گے کیونکہ اس خطے سے بیشتر نمایاں سیاستدان آزاد حیثیت سے بھی انتخابی میدان میں موجود اور انتخابات میں بڑی تعداد میں آزاد اْمیدواران کی کامیابی کی صورت میں حکومت سازی کیلئے اس خطے میں اْمیدواران کی سبزی منڈی لگنے کا بھی امکان ہے۔ دوسری جانب بانی پی ٹی آئی عمران خان کو سائفر اور توشہ خانہ کیسز میں یکے بعد دس سال اور چودہ سال قید کی سزا سنائے جانے پر پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنوں کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا اور کوئی احتجاجی مظاہرہ کیا گیا نہ ریلی نکالی گئی حتیٰ کہ پی ٹی آئی جنوبی پنجاب اور پی ٹی آئی ملتان عہدیداران سمیت انکے حمائت یافتہ امیدواران کی جانب سے کوئی مذمتی بیان بھی سامنے نہیں آسکا۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی کارکنوں کا کہنا ہے کہ انہیں قیادت کی جانب سے ان سزاؤں پر کسی قسم کا ردعمل دینے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ کچھ شر پسند عناصر اسکی آڑ میں اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں انکی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دینگے اور انکی تمام تر توجہ 8 فروری کے انتخابات پر ہے عوام ووٹ کی پرچی کے ذریعے اپنے ردعمل کا اظہار کرینگے۔