دونوں بڑی جماعتوں کو ایک دوسرے کے کندھے کی ضرورت؟

الیکشن کے اعلان کے بعد کچھ عرصہ سیاسی پارٹیوں میں انتخابی مہم معمول سے کم ہی چلائی گئی اس ایک وجہ شدید دھند اور سردی بھی تھی جس نے 2024کی انتخابی مہم پر اتنا گہرا اثر ڈالا تھا کہ سیاسی جماعتیں اپنے گڑھ شہروں میں ڈور ٹو ڈور انتخابی مہم چلانے میں ناکام نظر آتی رہیں۔ سردی کی سخت لہراور دن کے چھوٹے دورانیے نے سیاسی جماعتوں اور انکے کارکنوں کے حواس مختلف کر کے رکھ دئیے  کہ وہ انتخابی مہم چلائیں تو چلائیں کس طرح۔ شروع کے دنوں میں دیکھا جائے تو پاکستان پیپلز پارٹی کو کم از کم یہ کریڈٹ تو دینا پڑیگا کہ وہ الیکشن کے حوالے سے باقی سب جماعتوں سے پہلے عوام کے درمیان جا پہنچی اور مسلم لیگ ن سمیت باقی سب سے پہلے پارٹی منشور عوام کے سامنے لے آئی۔حقیقت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اس وقت کی تمام سیاسی قیادتوں میں سے سب سے کم عمر ہیں جو ملک گیر سطح پر پارٹی کے جلسوں سے خطاب میں مصروف ہیں۔انہوں نے ملک گیر جلسوں میں عوام کا لہو گرمایا۔جنوبی پنجاب سے وسطی پنجاب تک جلسوں کا لمبا سفر بھی طے کیا۔سابق وفاقی وزیر اطلاعات قمر زماں کائرہ کے حلقے میں جلسہ، پی پی 96سے پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے جنرل سیکرٹری سید حسن مرتضی کے حلقے چنیوٹ میں جلسہ ،لاہور سمیت ساہیوال دیگر علاقوں میں پارٹی پاور شو کیا اور یہ سلسلہ 6فروری تک جاری رہے گا۔لاہور میں ہونے والے این اے 127 کے جلسے کوسیاسی مخالفین نے خوب آڑے ہاتھوں لیا اور خوب تنقید کی۔جبکہ دوسری طرف بلاول کی جلسوں میں مخالفین کو دھاڑنے پر مسلم لیگ ن کی قیادت پر سکتہ طاری رہا۔ن لیگ کی طرف سے بلاول بھٹو زرداری کی سیاسی حملوں کا جواب نہیں دیا جا رہا تھا،صرف دوسری اور تیسرے درجے کی قیادت کا کبھی کبھار سخت بیان آ جاتا ہے۔بلاول کے مناظرے پر بھی ن لیگ محتاط ہی رہی تاہم اس پر مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے حوصلہ کیا اور اس پر لب کشائی کی۔ آصف علی زرداری جنہیں زیرک سیاستدان کہا جاتا ہے وہ بھی واضح کرچکے ہیں کہ ہمارے بغیر ن لیگ حکومت نہیں بناسکتی اگر بلاول نے ن لیگ کو ووٹ نہیں دیا تو وہ اقتدار میں نہیں آسکتے اور ہم بھی ن لیگ کے بغیر حکومت قائم نہیں کرسکتے۔ جس سے یہ محسوس ہورہا ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں کو ایک دوسرے کے سہارے اور کندھے کی ضرورت پڑے گی۔ کیا اس طرح کی حکومت اپنی مقررہ مدت پوری کرے گی یا عوام مارچ اپریل 2025 میں پھر نئے انتخابات کی طرف بڑھ رہی ہوگی اس کا فیصلہ بھی 8 فروری کے بعد ہوجائے گا۔ پنجاب اور خصوصاً لاہور جس نے ہمیشہ پاکستان کی سیاست کی سمت کا تعین کیا ہے یہاں پر ن لیگ اپنی سیٹ ایڈجسٹمنٹ آئی پی پی کے ساتھ میدان میں اتر چکی ہے۔
 پیپلز پارٹی نے عام انتخابات میں صوبائی دارلحکومت کو خالی نہیں چھوڑا۔پاکستان پیپلز پارٹی نے لاہور کی کل 44قومی و صوبائی نشستوں میں سے 41 حلقوں میں اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں۔سیاسی پنڈت اور بظاہر پیپلز پارٹی کی سیاسی مہم سے یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ لاہور میں وہ صرف این اے127اور اسکے 5ذیلی صوبائی حلقوں پی پی 157,160,161,162اور163سے الیکشن لڑ رہی ہے۔ یہاں ماضی میں ضمنی انتخاب میں پیپلز پارٹی چوالیس ہزار کے قریب ووٹ لے چکی ہے۔لاہور کے اس حلقے میں اسلم گل ضمنی الیکشن میں امیدوار تھے جنہوں نے چوالیس ہزار سے زائد ووٹ لیے تھے۔پرانی حلقہ بندیوں میں یہ این اے 133 تھا اس کی تین پی پی تھے جو اب نئی حلقہ بندیوں این اے 127 ہوگیا ہے اور اس کے نیچے پانچ صوبائی حلقے ہیں۔بلاول بھٹو کے لاہور میں الیکشن لڑنے کو سیاسی لوگ بڑا دلیرانہ اقدام قرار دے رہے ہیں۔ اگر بلاول بھٹو اس حلقے میں کامیاب ہوتے ہیں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ پیپلز پارٹی پنجاب میں دوبارہ قدم جمانے کی دوڑ میں شامل ہو جائے گی۔ این اے 119 اور 122سے امیدوار افتخار شاہد ایڈوکیٹ بیماری کے باعث ہسپتال داخل ہیں۔بلاول بھٹو کی غیر موجودگی میں لاہور کا سیاسی محاذ انکی چھوٹی ہمشیرہ آصفہ بھٹو زرداری نے سنبھال رکھا ہے اور انہوں نے پنجاب میں پہلی مرتبہ این اے 127میں پارٹی کے ورکرز کنونشن سے با ضابطہ خطاب بھی کیا۔لاہور کے جیالوں کی طویل عرصے سے خواہش تھی کہ پنجاب کا سیاسی محاذ آصفہ بھٹو کے حوالے کر دیا جائے چلیں دیر آید درست آید کے مترادف وہ آ گئی ہیں اور بالکل بی بی رانی کی طرح اپنے ووٹرز کو انکے قریب جا کر مل رہی ہیں اور انکے ساتھ سیلفیاں بھی لے رھی ہی۔ جس پر جیالے اور جیالیاں انکے صدقے واری جا رھے ہیں۔ اس صورت حال کے بعد سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اپنی صاحبزادی مریم نواز کیساتھ اپنے انتخابی حلقے میں ریلی نکال چکے ہیں۔ مسلم لیگی ووٹرز اور اہل علاقہ نے گھروں کی چھتوں سے ان پر پھولوں کی پتیوں کی بارش کر کے استقبال کرتے نظر آتے ہیں۔ایک طویل عرصے کے بعد اپنے لیڈر کو اپنے درمیان پا کر وہ پھولے نہیں سماتے تھے۔قبل ازیں شہباز شریف بھی این اے 132میں کامیاب ریلی نکال چکے ہیں۔صوبائی دارلحکومت میں ن لیگ نے اب گھر گھر جانے کی بجائے ریلیوں کی صورت میں اپنے ووٹرز سے رابطے کا سلسلہ شروع کیا ہے دیکھتے ہیں اس کے 8فروری کے انتخابات پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں تاہم ایک حقیقت اب ساری سیاسی جماعتوں پر واضح ہو چکی ہے کہ مستقبل میں بننے والی مخلوط حکومت کو بہت بڑے بڑے اور تلخ چیلنجز کا سامنا ہو گا اور انہیں آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہو گا اس صورت میں بڑی سیاسی جماعتیں اپنے منشور پر کس حد تک عمل کر پاتی ہیں اس کا انحصار انکی اجتماعی منصوبہ بندی اور حکمت پر ہے۔یہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ آٹھ فروری دوہزار چوبیس کا یہ انتخابی معرکہ ماضی کے تمام الیکشن سے مختلف ہوگا کیونکہ اس الیکشن نے جہاں ملکی معیشت اور مستقبل کی سمت کا تعین کرنا ہے وہیں انہیں اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا بھی سامنا کرنا پڑے گا اگر مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی اقتدار میں آتی ہے تو ایک چیلنج ان کے سامنے اور بھی ہوگا وہ معاشرے میں تحمل مزاجی اور بردباری کے فروغ کو جنم دینا ہوگا اگر ماضی کی طرح حکومت میں آتے ہی اپنے مخالفین کو سخت آزمائش میں مبتلا کیا گیا تو نیء حکومت میں آنے والی جماعت کوئی نئی بنیاد نہیں رکھیں گے ہمارے مہنگائی ،معیشت اور عام آدمی کا معیار زندگی بد سے بدتر ہی ہو جائے گا جس سے معاشرے میں انتشار ہی جنم لے گا۔

ای پیپر دی نیشن