انتخابی مہم زور پکڑ چکی ہے ، اب یہ ایک معمول کی انتخابی مہم نہیں رہی ہے بلکہ اس کے ساتھ جڑے اہم واقعات بھی رونما ہو رہے ہیں، سیاست میں تلخی اور تشدد بڑھ رہا ہے، دہشت گردی کے واقعات پھررو نما ہو رہے،پی ٹی آئی کے قائد عمران خان کو دو اہم کیسز میں سزائیں سنائی گئی ہیں، سائفر کیس میں انہیں 10 سال قید با مشقت کی سزا سنائی گئی جبکہ توشہ خانہ کیس میں انہیں اور ان کی اہلیہ بشری بی بی کو 14 ،14 سال قید کی سزا سنا دی گئی ہے اور بشری بی بی کوحراست میں لے لیا گیا ہے ۔ ان سزاؤں کے پی ٹی آئی کے لیے مضمرات تو ہیں لیکن اس کے قومی زندگی پر بھی بہت ہم اثرات پیدا ہوں گے، ملک کے سیاسی تاریخ اس بات کی غماض ہے کہ پاکستان میں وزارت عظمی کے منصب پر فائز رہنے والی شخصیات کو عدالتوں سے سزائیں ہوتی رہی ہیں، عمران خان پہلے سابق وزیر اعظم نہیں جنہیں سزا دی گئی ہے ، قبل ازیں سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو ایس جی ایس کیس میں قید کی سزا سنائی گئی تھی سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو بھی پانامہ کیس میں سزائیں دی گئیں، ان مقدمات میں میاں نواز شریف بری ہو چکے ہیں، اوروہ اس بات کا تذکرہ انتخابی مہم میں جلسوں کے دوران کرتے رہتے ہیں۔
انتخابی مہم کے دوران تشدد کے واقعات بھی نظر انداز نہیں کئے جا سکتے ، این اے8 باجوڑ سے پی ٹی ائی کے امیدوار ریحان زیب خان فائرنگ سے جاں بحق ہو گئے ہیں، اس سے قبل سبی میں پی ٹی آئی کی ریلی کے قریب ہونے والے دھماکے میں بھی کے افراد جاں بحق ہوے ہیں، یہ تمام تشویش ناک واقعات ہیں،لاہور میں پیپلز پارٹی نے حملوں کی شکایت درج کرائی ہے ،الیکشن کمیشن آف پاکستان کو اس طرح کی شکایات موصول ہو رہی ہیں اور اس بارے میں باز پرس بھی کی جا رہی ہے، اس وقت جب ملک کے ایک نازک کا دورہے پر کھڑا ہے ملک میں دہشت گردی کے واقعات رونما ہو رہے ہیں بلوچستان کے علاقے مچھ علاقے میں دہشت گردی کے واقعات ہوئے دہشت گردوں کو پسپا کر دیا گیا ، اس طرح کے واقعات ملک کے دوسرے حصوں میں بھی ہو رہے ہیں۔عمران خان کو ایک کیس میں سزا دینے والے جج وہی ہیں جنہوں نے پانامہ کیس میں میاں محمد نواز شریف کو سزا سنائی تھی،جج صاحب کو میاں نواز شریف اور عمران خان دونوں نے ملازمت میں توسیع دی تھی ۔ توشہ خانہ کیس میں بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کو چودہ چودہ سال قیدِ بامشقت کی سزا سنا دی گئی۔راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں احتساب عدالت نے سماعت کرتے ہوئے بانی پی ٹی ائی کو 10 سال کے لیے نااہل بھی قرار دے دیا۔عدالت کی جانب سے بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی پر مجموعی طور پر 1 ارب 57 کروڑ 40 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔بانی پی ٹی آئی پر 78 کروڑ 70 لاکھ روپے جبکہ بشریٰ بی بی پر بھی 78 کروڑ 70 لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا۔مختصر فیصلہ سنانے کے بعد جج محمد بشیر کمرہ عدالت سے روانہ ہو گئے۔اس سے قبل سائفر کیس میں بھی ان کو سزا دی گئی ،عمران خان کی سزاؤں کی وجہ سے پی ٹی آئی کے لیے مسائل بڑھیں گے اگر اس سے سیاست میں کئی برسوں تک تلخی محسوس ہوتی رہے گی اور ایسا لگ رہا ہے کہ ملک ایک بار پھر نوے کی دہائی کی محاز آرائی کی طرف بڑھ رہا ہے، پاکستان مسلم لیگ نون کے قائد میاں نواز شریف مریم نواز شریف اور میاں شہباز شریف، انتخابی جلسوں سے خطاب کر رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی کم و بیش ہر روز ملک کے کسی نہ کسی حصے میں جلسہ سے خطاب کر رہے ہیں۔ ان راہنماؤں کی طرف سے جو خطاب کیے جا رہے ہیں اس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ انتخابی مہم میں شدت آ رہی ہے بلال بھٹو زرداری نے جو متعدد انٹرویوز دیے ہیں ان میں یہ کہا ہے کہ اگر حکومت بنانے کا موقع ملا تو وہ مسلم لیگ نون سے تعاون حاصل نہیں کریں گے۔ اس کے برعکس مسلم لیگ نون کی طرف سے پیپلز پارٹی کی قیادت پر بہت زیادہ کڑی نکتہ چینی نہیں کی جا رہی ہے اور ممکنہ طور پر کسی پالیسی کے تحت نرم لہجہ اختیار کیا جا رہا ہے، ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ٓاٹھ فروری کو جب انتخابی نتائج آئیں گے ممکنہ تعاون کی راہ کو مسدود نہیںکیا گیا ،جماعت اسلامی ،جے یو آئی اے این پی،اور پی ٹی آئی بھی اپنی مہم کو جاری رکھے ہوئے ہیں ۔
دسمبر کی ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ پر نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) میں سماعت مکمل ہو گئی۔نیپرا نے بجلی 5 روپے 62 پیسے فی یونٹ مہنگی کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔اس اضافے کا اطلاق لائف لائن کے الیکٹرک صارفین پر نہیں ہو گا۔ایف بی آر کی تنظیم نو کے فیصلے پر بھی عمل درآمد ہو رہا ہے، ایف بی آر کو ان لینڈ ریونیو اور کسٹم کے دو حصوں میں تقسیم کرنے کی منظوری پہلے ہی دے دی گئی ہے تاہم اسے قانون بنا کر اس پر عمل درآمد منتخب حکومت ہی کر سکے گی ۔ اس بات سے قطع نظر ملک کو ریونیو بڑھانے کی اشد ضرورت ہے، ملک کے قرضوں کا بوجھ دن بدن بڑھ رہا ہے۔تحریک انصاف نے دوبارہ انٹرا پارٹی الیکشن کروانے کا فیصلہ کیا ہے ،تحریک انصاف کی جنرل باڈی کا اجلاس ہوا جس میں انٹرا پارٹی الیکشن کی قرارداد منظور کرلی گئی۔ قرارداد پاس ہونے کے بعد سات دن کے اندر اندر انتخابات کروائے جائیں گے۔اجلاس میں رؤف حسن کو متفقہ طور پر تحریک انصاف کا چیف الیکشن کمشنر مقرر کردیا گیا۔ انٹرا پارٹی انتخابات کے فیصلے تک عمر ایوب پارٹی کے چیف آرگنائزر ہوں گے۔ 31 جنوری 2024 تک پاکستان تحریک انصاف کی رابطہ ایپ پر رجسٹرڈ ممبران ہی الیکشن لڑنے اور ووٹ ڈالنے کے اہل ہوں گے۔
تلخی اور تشدد کے واقعات میں انتخابی مہم زور پکڑ گئی
Feb 01, 2024