مالاکنڈ‘ اسلام آباد (نیٹ نیوز+ نمائندہ خصوصی) چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کو کسی الیکشن میں لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں ملی اور 2018 کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کو انتخابی مہم چلانے نہیں دی گئی۔ بٹ خیلہ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ 2018 میں پی ٹی آئی کو دہشت گردوں نے این او سی دیا ہوا تھا۔ خان صاحب کے تمام مخالف چور تھے لیکن کیا ان کے ساتھ موجود سب فرشتے تھے؟۔ خان صاحب کو خود توبہ کرنی چاہیے اور جو ہو رہا ہے یہ مکافات عمل ہے۔ پیپلز پارٹی جمہوری جماعت ہے اس لیے بانی پی ٹی آئی کو سزا پر جشن نہیں منا رہی ہے۔ خیبر پی کے میں مسلم لیگ ن اور جمعیت علمائے اسلام دونوں اب تک آپ کے پاس ووٹ مانگنے نہیں آئے لیکن میں آیا ہوں کیونکہ مجھے آپ لوگوں کی فکر ہے۔ میاں صاحب کو اپنی بیٹی کے ساتھ انتقام کی سیاست دیکھنا پڑی لیکن کیا ن لیگ والے آج اپنے ووٹ کی عزت کر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے علاوہ عوام کی بات کوئی نہیں کرتا۔ اگر آپ چاہتے ہو نواز شریف آپ کا چوتھی مرتبہ وزیراعظم نہ بنے تو اس سازش کو ناکام بنائیں اور انتخابات والے روز شیر کے بجائے تیر پر نشان لگائیں۔ ایسی 17 وزارتیں جو ملکی خزانے پر بوجھ ہیں انہیں ختم کر دوں گا کیونکہ عمران خان اور نواز شریف یہ کام نہیں کر سکے۔ ہم نے سندھ کے ہر ضلع میں مفت علاج کے لیے ہسپتال بھی بنائے ہیں، ہم اسی طرح کے ہسپتال مالاکنڈ بھی بنائیں گے اور ہیلتھ کارڈ کے نام پر دھوکا نہیں کریں گے۔ ہم نے سیاست کو سیاست رکھنا ہے اس کو دشمنی میں تبدیل نہیں کرنا۔ ان لوگوں کو کہنا چاہتا ہوں ملک اور معیشت کو تباہ نہ کریں۔ بلاول بھٹو زرداری نے کوئٹہ میں پی پی پی کے الیکشن آفس اور تربت میں جیالے امیدواروں کے گھروں پر حملوں کی مذمت کی ہے۔ بیان میں انہوں نے کہا کہ کوئٹہ کے سریاب روڈ پر جمال رئیسانی اور علی مدد جتک کے انتخابی دفتر پر حملہ ناقابل برداشت ہے۔ حملے میں زخمی ہونے والے کارکنوں جاوید احمد، غلام اللہ، نصراللہ، عبداللطیف اور علی محمد کی جلد صحت یابی کی دعا کی۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ تربت میں ہمارے امیدواروں اصغر رند اور ظہور بلیدی کے گھروں پر حملے کئے گئے۔ دہشت گردوں کے بزدلانہ حملے پاکستان پیپلزپارٹی کے کارکنوں کے پہاڑ جیسے حوصلوں کو شکست نہیں دے سکتے۔ اب یہ کہتے ہیں کہ دہشتگردی کا خطرہ ہے لیکن اس کے باوجود میں آج مالاکنڈ میں اپنے بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہوں۔ مالاکنڈ کی عوام نے قربانیاں دے کر دہشتگردوں کو شکست دی۔ مالاکنڈ کے لوگ سلیکٹڈ راج کو بھی بھگتتے رہے۔ اب مالاکنڈ کے عوام کو موقع ملا ہے کہ وہ ایسے امیدواروں کو منتخب کریں جو پارٹی کے ساتھ ہمیشہ وفادار رہے ہیں۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اب ہم 2024ء کے انتخابات کے قریب ہیں اور ایک پارٹی ایک سابق وزیراعظم کے نااہل ہونے پر خوشیاں منا رہی ہے۔ عمران خان بھی نفرت اور تقسیم کی سیاست کر رہا تھا اور نواز شریف بھی تین مرتبہ حکومت میں آکر نفرت اور تقسیم کی سیاست ہی کرتا رہا اور اگر یہ چوتھی مرتبہ وزیراعظم بن گیا تو یہی کرے گا اور عوام کا نقصان ہوگا۔ سیاستدانوں کو میرا یہ پیغام ہے کہ وہ قوم کے مستقبل سے نہ کھیلیں۔ ہم سمجھے تھے کہ نوازشریف ووٹ کو عزت دے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ عمران خان اپنے ہر مخالف کو چور کہتا تھا لیکن اب بھی وہ نادم نہیں ہے۔ عمران خان اور نواز شریف کو سوچنا چاہیے کہ یہ مکافات عمل ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وہ وعدہ کرتے ہیں کہ اگر وہ وزیراعظم بن گئے تو سچائی اور مفاہمت کا کمیشن بنائیں گے کیونکہ قوم کو مفاہمت کی ضرورت ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ سیاست ذاتی عناد اور دشمنی کا ذریعہ بن جائے کیونکہ ایسی سیاست سے ملک اور اس کی معیشت متاثر ہوتے ہیں۔ ہم نے جن دہشتگردوں کو فاٹا، پاٹا اور کے پی کے سے نکال دیا تھا عمران خان نے انہیں پھر واپس آنے کی اجازت دے دی۔ میں ان دہشتگردوں کو روکوں گا اور ان کا سر کاٹوں گا۔ تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کر دیں گے کیونکہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی روایت یہ ہے۔ انہوں نے بدلہ لینے کی بجائے کہا تھا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ جس دن پی ٹی آئی کے انتخابی نشان کا کیس سپریم کورٹ میں سنا جانے والا تھا اس سے صرف دو روز پہلے پی ٹی آئی کے ایک نئے لیڈر نے چیف جسٹس کے خلاف غلط زبان استعمال کی اور کہا کہ یہ عمران خان کہہ رہے ہیں وہ نہیں کہہ رہے۔ اس مقدمے کی سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے وکلاء کیس کے لئے کوئی بھی دستاویز نہیں پیش کر سکے اور نہ ہی پی ٹی آئی کی رکنیت سازی کی کوئی دستاویز پیش کی۔ پی ٹی آئی نے اپنا انتخابی نشان پلانٹڈ وکلاء کی وجہ سے کھویا۔ سائبر کیس میں بھی جو کہ قومی سلامتی کا ایک کیس ہے یہ پلانٹڈ وکلاء تین روز تک عدالت میں پیش نہیں ہوئے، نتیجے کے طور پر یہ کیس بھی ہار گئے۔ عمران خان کو اس کے اپنے وکلاء نے نقصان پہنچایا کیونکہ وہ وکلاء پلانٹڈ تھے۔ اب پی ٹی آئی کے ووٹر ورکرز آج آزاد امیدواروں کو ووٹ دے کر اپنا ووٹ ضائع نہ کریں۔ اور اگر وہ چاہتے ہیں کہ شیر کا راستہ روکا جائے تو انہیںتیر پر مہر لگانی چاہیے۔