انسان سازی کا یہ مشکل کام بعد ازاں جس جماعت کے حصے میں آیا وہ حضورؐ کے علمی اور روحانی ورثاء کی جماعت تھی جنہیں صوفیاء و عرفاء کہا جاتا ہے۔ ان اولوالعزم شخصیات کی سرپرستی میں جو مراکز تعلیم و تربیت قائم ہوئے آگے چل کر وہی مراکز مخصوص روحانی ماحول کی وجہ سے ’’خانقاہ‘‘ کہلائے۔ ان تمہیدی معروضات میں ’’خانقاہ‘‘ کا اصل مقام و منصب اور ذمہ داری کا تصور خاصی حد تک واضح ہو جاتا ہے۔ یہ صُفہ کی طرز کا نظام تعلیم و تربیت ہے جہاں اہل ایمان خلوص و فنائیت میں ڈھل کر سال ہا سال تعلیم کتاب اور تزکیۂ نفس کی دشوار گزار منزلیں طے کرتے ہیں۔ سنت نبویؐ سے مربوط یہ نظام تربیت و تزکیہ صدرِ اوّل سے لیکر اب تک جاری و ساری ہے۔ اگرچہ اس کی وہ پہلی سی آن بان تو نہیں تاہم کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے اور ضرورت ہے کہ اس رسم کو ایک مرتبہ پھر حقیقت میں بدلا جائے۔ اسی نظام تربیت نے اسلام کے دامن کو امام حسن بصری، سری سقطی، داؤد وطائی، ذوالنون مصری، بشر حافی، جنید بغدادی، امام غزالی، ابو الحسن خرقانی، بہاؤالدین نقشبندی، سید علی ہجویری، شیخ عبدالقادر جیلانی، شہاب الدین سہروردی، جلال الدین رومی، معین الدین اجمیری، فرید الدین گنج شکر، نظام الدین اولیائ، شاہ سلیمان تونسوی اور مجدد الف ثانی شیخ فاروق احمد سرھندی جیسی ان گنت عبقری شخصیات سے مالا مال کئے رکھا۔ ان برگزیدہ شخصیات نے ہر دور میں اسلام کی بے لوث خدمت کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ اسلامی اخوت میں پروئے ہوئے ان غلامانِ رسولؐ نے تمام لسانی، علاقائی اور نسبی شناختوں سے بالاتر ہوکر محض دعوت اسلام کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔ انہیں نہ مال غنیمت کا لالچ تھا نہ کشور کشائی کی فکر۔ انکے سامنے صرف ایک منزل تھی کہ دینِ مصطفوی کو لوگوں کے دلوں میں اتار دیا جائے۔ انہی خصوصیات کی بنا پر غیر مسلم مؤرخین نے اعتراف کیا کہ سیاسی اسلام کے شکست و ریخت اور عروج و زوال کے باوجود روحانی اسلام مسلسل قائم رہا بلکہ اکثر و بیشتر روحانی اسلام نے سیاسی اسلام کو سہارا دیکر دوبارہ کھڑا کر دیا۔ آج اگر زوال بڑھ رہا ہے تو اسکی بنیادی وجہ یہی ہے کہ یہ روحانی چشمے خشک ہورہے ہیں۔ دین کی انسانیت نواز تعبیرات کی بجائے انسانیت کش رویے پنپ رہے ہیں جس کی مثالیں طالبان اور خارجیت کی موجودہ لہر میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اسلام کی عالمگیر فتوحات میں بڑے بڑے جنگجو سپہ سالار بھی شامل رہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ قلعوں کو فتح کرنیوالے اکثر جنگجو دلوں کو فتح نہیں کر سکے‘ اس لیے کہ قلعوں کو فتح کرنے کیلئے عسکری طاقت و جبروت مل بھی جائے تو دل نہیں جیتے جاسکتے۔ دلوں کو فتح کرنیوالی صرف ایک طاقت ہے اور وہ ہے محبت و انسانیت نوازی۔ خانقاہوں کے تربیت یافتہ یہ لوگ فن سپہ گری کی بجائے ادائے دلبری میں مہارت رکھتے تھے۔ سروں اور دلوں کی فتوحات اور ان کی اثر انگیزی کا فرق دیکھنا ہو تو آپ کو سپین اور ہندوستان کی موجودہ صورتحال اور مسلمانوں کی تعداد سے اندازہ ہوجائیگا۔
مسلم اُمہ گزشتہ دو تین سو سال سے جس زوال کا شکار ہے اس سے نکلنے کیلئے بہت سے مسلم مفکرین اور دانشور مختلف راستے تجویز کرتے رہے ہیں لیکن حکیم الامت علامہ محمد اقبال نے تمام اقوام اور تہذیبوں کا تقابلی مطالعہ کرنے کے بعد اسکے امراض کا علاج یوں تجویز کیا ہے:
وہی دیرینہ بیماری وہی نامحکمی دل کی
علاج اس کا وہی آبِ نشاط انگیز ہے ساقی!
وطن عزیز میں اس وقت ہزاروں چھوٹے بڑے آستانے موجود ہیں ان میں سے بعض کے ساتھ تو واقعتاً لاکھوں لوگ وابستہ ہیں لیکن ان وابستگان میں سے بہت کم ایسے ہونگے جن کو طریقت و شریعت کے آداب کا علم ہو۔ اسی طرح ایسے آستانے تو اور کم ہیں جہاں تعلیم و تربیت کا معیاری اہتمام کیا جا رہا ہے‘ حالانکہ یہ تمام بزرگان دین اپنے اپنے وقت کے عارف و عالم تھے اور انکے ہاں تعلیم و تربیت اور تزکیہ نفس کا معیاری بندوبست ہوتا تھا۔ اس وقت بہت سے روحانی خانوادوں کے چشم و چراغ تعلیم و تذکیہ کا یہ فریضہ چھوڑ کر لیلیٰ اقتدار کے مجنوں بن چکے ہیں۔ وہ اپنے باپ دادا کے روحانی معمولات چھوڑ کر دنیا طلبی کیلئے مختلف سیاسی جماعتوں میں براجمان ہیں۔ سیاست بذاتِ خود کوئی برائی نہیں مگر کہاں اللہ اور اسکے رسول کے دین کی خدمت اور کہاں موجودہ کرپٹ سیاسی قائدین کی خوشنودی۔ ہمارے روحانی خانوادے اگر اب بھی دین کا حقیقی درد لیکر اٹھ کھڑے ہوں اور صرف ایک ایک سو طلبہ کی تعلیم و تربیت کو اپنا ہدف بنا لیں تو ہر سال لاکھوں اہل محبت علماء فارغ ہوکر مسند دعوت و ارشاد پر متمکن ہو سکتے ہیں۔ دین کی اس خدمت سے انکے مقام و مرتبہ کو بھی چار چاند لگیں گے ان کا ضمیر بھی مطمئن ہوگا اور علم و عرفان کی روشنی بھی پھیلے گی جس کے ذریعے ایک پُرامن اور صالح سوسائٹی کے امکانات بھی واضح ہو سکیں گے۔ وطن عزیز میں یہ شعبہ جتنا موثر ہو سکتا ہے اتنا کوئی اور نہیں۔ یہ اس ملک کی سب سے بڑی این جی او ہے جہاں لوگ اپنا سرمایہ سعادت سمجھ کر پیش کرتے ہیں لیکن اسکا مصرف ثمر آور نہیں۔ اس سلسلے میں ویسے تو بہت سے حضرات محنت کر رہے ہیں لیکن صاحبزادہ محبوب حسین چشتی اور حضرت ضیاء الامت پیر محمد کرم شاہ الازھری نے نہایت خوبصورتی کے ساتھ اپنے اپنے آبائی آستانوں کو عزت و توقیر بخشی ہے۔ حضرت ضیاء الامت کی علمی و دینی خدمت کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے تو کالم نہیں بلکہ کئی دفاتر درکار ہیں اور یہ کوئی پرانی بات بھی نہیں بلکہ ہماری آنکھوں دیکھا حال ہے۔ انکی فصل آرزو ثمر بار ہو چکی ہے۔ انکی جلائی ہوئی شمع نے چند سالوں میں ملک اور بیرون ملک علم و عرفان کے ہزاروں چراغ روشن کر دیئے ہیں۔ جہالت کیخلاف روشنیاں پھیلانے کا یہ سلسلہ انہیں صدیوں زندہ رکھے گا۔ اللہ کرے ہمارے باقی روحانی خانوادے بھی اسی طرح سرگرم عمل ہو جائیں۔