مشہور کہاوت ہے کہ اچھا ہمسایہ ایک نعمت ہوتا ہے جو دکھ سکھ میں آپ کا ساتھ نبھاتا ہے۔ مگر پاکستان ہمسایہ ملک بھارت کے حوالے سے اس معاملے میں خوش قسمت ثابت نہیں ہوا۔ تقسیم ہند کے ساتھ ہی جنم لینے والے کشیدہ تعلقات پاکستان کی جانب سے مخلصانہ کوششوں کے باوجود سال دوہزار دس میں بھی بہتر نہ ہوسکے۔ دونوں ممالک کے درمیان بون آف کنٹینشن سمجھا جانے والا مسئلہ کشمیرجوں کا توں ہے۔ بھارت دوہزار دس میں بھی کشمیر کو متنازعہ علاقہ ماننے کے بجائے اٹوٹ انگ کا راگ الاپتا رہا۔
پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی دعوت پرجولائی میں بھارتی ہم منصب ایس ایم کرشنا نے پاکستان کا دورہ کیا تو ممبئی حملوں کے بعد سےمعطل سٹریٹجک مذاکرات کی بحالی کی امید پیدا ہوئی جو جلد ہی دم توڑ گئی۔ مذاکرات بے نتیجہ اختتام پزیر ہوئے اور مسئلہ کشمیر،پانی اور سیاچن سمیت کسی بھی معاملے میں پیش رفت نہ ہوسکی۔ بھارتی میڈیا نے دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات کو تماشہ اور پاکستانی وزیر خارجہ کو تضحیک کا نشانہ بنایا۔ ایک بار پھر مذاکرات آخری مراحل میں آکر ناکام ہوگئے
دونوں ممالک کے درمیان دوسرا بڑا مسئلہ پانی کا ہے۔ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی دوہزار دس میں بھی جاری رہی۔ بھارتی انڈس کمشنر اورنگا ناتھن کی قیادت میں وفد نے دومرتبہ پاکستان کا دورہ کیا جبکہ پاکستان کےسابق انڈس کمشنر جماعت علی شاہ بھی وفد کے ہمراہ بھارت گئے لیکن بے سود۔ بھگہار ڈیم اور نیم بازکو کی تعمیر پر بھارت ڈٹا رہا اور یوں بات آگے نہ بڑھ سکی۔ بھارت کی جانب سے آبی جارحیت کے ساتھ ساتھ عسکری جارحیت کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ بھارت نے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان میں سیالکوٹ ورکنگ باؤنڈری ایریا کو سینتیس بار نشانہ بنایا۔ بجوات ،چپراڑ، ظفروال، شکرگڑھ اور باجڑہ گڑی میں ہونے والی بلا اشتعال فائرنگ اور گولہ باری سے ایک بچی جاں بحق جبکہ متعدد افراد زخمی ہوئے۔ پاکستان کی جوابی کارروائی نے بھارتی توپوں کے منہ تو خاموش کرادیئے لیکن جارحانہ کارروائیوں کا سلسلہ نہ تھما۔ ادھر بھارت کی جانب سے بلوچستان میں دخل اندازی کا سلسلہ بھی جاری رہا جس کی وجہ سے صوبہ آج بھی بدامنی کا شکار ہے۔
بھارت کی ہٹ دھرمی کے باوجود پاکستان نے دونوں ممالک کے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششیں جاری رکھیں۔ جذبہ خیر سگالی کے تحت پاکستان کی جانب سےچارسو بیالیس قیدی رہا کیے گئے جبکہ اس معاملے پر بھی بھارت کا رویہ حوصلہ افزا نہیں رہا۔
پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی دعوت پرجولائی میں بھارتی ہم منصب ایس ایم کرشنا نے پاکستان کا دورہ کیا تو ممبئی حملوں کے بعد سےمعطل سٹریٹجک مذاکرات کی بحالی کی امید پیدا ہوئی جو جلد ہی دم توڑ گئی۔ مذاکرات بے نتیجہ اختتام پزیر ہوئے اور مسئلہ کشمیر،پانی اور سیاچن سمیت کسی بھی معاملے میں پیش رفت نہ ہوسکی۔ بھارتی میڈیا نے دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات کو تماشہ اور پاکستانی وزیر خارجہ کو تضحیک کا نشانہ بنایا۔ ایک بار پھر مذاکرات آخری مراحل میں آکر ناکام ہوگئے
دونوں ممالک کے درمیان دوسرا بڑا مسئلہ پانی کا ہے۔ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی دوہزار دس میں بھی جاری رہی۔ بھارتی انڈس کمشنر اورنگا ناتھن کی قیادت میں وفد نے دومرتبہ پاکستان کا دورہ کیا جبکہ پاکستان کےسابق انڈس کمشنر جماعت علی شاہ بھی وفد کے ہمراہ بھارت گئے لیکن بے سود۔ بھگہار ڈیم اور نیم بازکو کی تعمیر پر بھارت ڈٹا رہا اور یوں بات آگے نہ بڑھ سکی۔ بھارت کی جانب سے آبی جارحیت کے ساتھ ساتھ عسکری جارحیت کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ بھارت نے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان میں سیالکوٹ ورکنگ باؤنڈری ایریا کو سینتیس بار نشانہ بنایا۔ بجوات ،چپراڑ، ظفروال، شکرگڑھ اور باجڑہ گڑی میں ہونے والی بلا اشتعال فائرنگ اور گولہ باری سے ایک بچی جاں بحق جبکہ متعدد افراد زخمی ہوئے۔ پاکستان کی جوابی کارروائی نے بھارتی توپوں کے منہ تو خاموش کرادیئے لیکن جارحانہ کارروائیوں کا سلسلہ نہ تھما۔ ادھر بھارت کی جانب سے بلوچستان میں دخل اندازی کا سلسلہ بھی جاری رہا جس کی وجہ سے صوبہ آج بھی بدامنی کا شکار ہے۔
بھارت کی ہٹ دھرمی کے باوجود پاکستان نے دونوں ممالک کے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششیں جاری رکھیں۔ جذبہ خیر سگالی کے تحت پاکستان کی جانب سےچارسو بیالیس قیدی رہا کیے گئے جبکہ اس معاملے پر بھی بھارت کا رویہ حوصلہ افزا نہیں رہا۔