قومی معاملات ‘ دریدہ دہنی اور غیر یقینی صورتحال!


یہ عجیب بات ہے کہ ہماری قومی زندگی میں کوئی نہ کوئی بحران ، کوئی نہ کوئی تضاد، کوئی نہ کوئی ہیجانی کیفیت اور کوئی نہ کوئی پریشان کن صورتحال ہر وقت موجود رہتی ہے۔ لگتا ہے جیسے کوئی سیاہ بختی ہمارے تعاقب میں ہے۔ اور ہم لوگ ملک و قوم کے حوالے سے بعض طے شدہ معاملات و مسائل کو نئے سرے سے زیر بحث لا کر متنازعہ بنانے کی کوشش ہی نہیں کرتے ہیں بلکہ آئین و قوانین میں موجود واضح احکامات اور ہدایات اور عدالتی فیصلوں میں دی گئی واضح تشریحات کے باوجود مختلف معاملات و مسائل اور ایشوز کے بارے میں من مانی تشریحات اور من پسند توجیحات کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے ہیں۔ اس صورتحال کا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ بہت سارے معاملات جن میں ملک کی نظریاتی اساس، سلامتی، بقا، نظام حکومت، آئینی اداروں کی حیثیت ، آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی، عدالتی فیصلے، فوج اور عدلیہ کا کردار جیسے اہم معاملات بھی شامل ہیں کے بارے میں ہم دن بدن غیر یقینی اور مبہم صورت حات سے دوچار ہو چکے ہیں۔
یہ المیہ نہیں ہے تو کیا ہے کہ ہمارے بعض مخصوص سوچ کے حامل دانشور، نام نہاد محقق، قلمکار، کالم نگار اور میڈیا اینکرز پاکستان کی شناخت اور وجود کو بطور ایک سیکولر سٹیٹ ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح اور دوسرے اکابرین کے نزدیک پاکستان کا تصور ایک لادینی ریاست کا تھا۔ یہ نام نہاد دانشور اور قلمکار اسی پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ مارچ 1949ءمیں پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں پاکستان کی اساس اور آئین پاکستان کی بنیاد کے طور پر منظور کی جانے والی قرارداد جسے ”قراردادِ مقاصد“کہا جاتا ہے اور جس میں قرآن و سُنت کی روشنی میں پاکستان کا آئین بنانے اور مملکت کا نظام چلانے اور اقلیتوں کو ان کے حقوق دینے کی سفارشات کی گئی تھیں کو پاکستان کی موجودہ تمام خرابیوں اور کمزورویوں کی جڑ قرار دینے لگے ہیں۔
ان نام نہاد قلمکاروں اور دانشوروں کو ایک زمانے میں میرے ایک محترم اور صاحب درد دوست نے ”اداس لمحوں کے زرد بچھو“کا لقب دیا تھاانہی سے سے تعلق رکھنے والے انگریزی زبان کے ایک کالم نگار جن کے کالم کا اردو ترجمہ ایک قومی اخبار میں بھی چھپتا ہے یہاں تک مطالبہ کر دیا ہے کہ پاکستان میں شراب نوشی سے پابندی اٹھا لینی چاہئے۔ شراب نوشی سے پابندی اٹھانے کا مطالبہ کرنے والے یہ دانشور قومی اسمبلی کے رکن ہیں اور اکثر ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں بھی رونق افروز ہوتے ہیں۔ انکی جماعت مسلم لیگ ن کو چاہئے کہ وہ ان کی باز پُرس کرے۔ بات ذرا دور نکل گئی کہنا یہ چاہ رہا تھا کہ پاکستان کی نظریاتی اساس، نظریہ پاکستان، شعائر اسلام اور پاکستان کی سلامتی کو ہم نے کھلا بازیچہ اطفال بنا رکھا ہے۔ کیا دنیا کے کسی اور ملک میں ایسا ہوتا ہے کہ اس ملک کی اساس اور بقا سے تعلق رکھنے والے بنیادی معاملات کو اس طرح غلط مبحث اورتنقید اور تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہو۔ آزادی¿ اظہار کی آڑ میں کوئی ملک اور معاشرہ اس طرح کی دریدہ دہنی کی اجازت نہیں دیتا۔
ان دنوں ایک اور موضوع بڑے زور شور سے زیر بحث ہے وہ ملک میں انتخابات کے انعقاد یا التوا کا موضوع ہے۔ ملک میں نئے انتخابات کی آمد آمد ہے بعض حلقوں اور بعض شخصیات کی طرف سے نئے نئے مطالبات اور نئے نئے شوشے چھوڑ کر انتخابات کے انعقاد کو مشکوک بنانے کی کوششیں زور پکڑتی جا رہی ہیں۔ آئین پاکستان میں انتخابات کے حوالے سے باقاعدہ طریقہ کار موجود ہے کہ اسمبلیوں کی آئینی میعاد پوری ہونے کے بعد مرکز اور صوبوں میں موجود حکومتیں کالعدم ہو جاتی ہیں اور انکی جگہ تین ماہ کیلئے عبوری حکومتیں وجود میں آ جاتی ہیں۔ مرکز میں عبوری وزیراعظم اور اسکی کابینہ کے ارکان اور صوبوں میں عبوری وزائے اعلیٰ اور انکی حکومتوں میں شامل افراد کے عام انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی ہوتی ہے۔ تین ماہ یعنی نوے دنوں کے اندر عام انتخابات کا مرحلہ مکمل ہو جاتا ہے۔ پھر نئی منتخب شدہ اسمبلیوں میں اکثریت کی بنا پر نئی حکومتوں کے وجود میں آنے پر عبوری حکومتیں ختم ہو جاتی ہیں۔ اب اس سیدھے سادھے اور آسان طریقے کے ہوتے ہوئے ہم انتخابات کے انعقاد کو مشکوک بنائیں یا مختلف شرائط عائد کر کے انتخابات کے راستے میں روڑے اٹکائیں یا عبوری عرصے کو تین ماہ سے بڑھا کر سالوں تک جاری رکھنے کا نعرہ لگائیںتو اس سے غیر یقینی صورتحال کا پیدا ہونا لازمی امر ہے۔
یقیناً ہمیں اپنے انتخابی نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ہم اس کیلئے کچھ فوری اقدامات کر سکتے ہیں۔ انتخابی امیدواروں کی اہلیت اور قابلیت کیلئے آئین کی دفعات باسٹھ اور تریسٹھ میں بیان کردہ شرائط کی سختی سے پابندی کی جا سکتی ہے۔ امیدواروں کیلئے تعلیمی قابلیت کی شرط کو (کم از کم بی اے کی ڈگری کا حامل ہونا) پھر ضروری قرار دیا جا سکتا ہے دوہری شہریت کے مالک یا جعلی ڈگریوں کے حامل افراد کے انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی لگانا کوئی ایسی مشکل بات نہیں۔ ایسے افراد جن کی عمومی شہرت اچھی نہ ہو اور انکی نیک نامی، دیانتداری اور اچھے اخلاق و کردار کے حوالے سے انگلیاں اٹھتی ہوں یا وہ کبھی کرپشن اور بدعنوانی وغیرہ میں ملوث رہے ہوں اور انہیں مقدمات کا سامنا کرنا پڑا ہو انکے حوالے سے الیکشن کمشن سیاسی جماعتوں کو بیان حلفی یا کسی اور قاعدے کے تحت پابند کر سکتا ہے کہ وہ اس طرح کے افراد کو ٹکٹ جاری نہ کریں اس طرح اور بھی کئی اقدامات کئے جا سکتے ہیں۔
 یہ اچھی بات ہے کہ الیکشن کمشن نے واضح کیا ہے کہ پارٹی الیکشن نہ کرانے والی یا اپنے اثاثوں کی تفصیلات الیکشن کمشن کے پاس جمع نہ کروانے والی سیاسی جماعتیں آئندہ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گی۔ اسی طرح دیگر معاملات جن میں سرکاری وسائل کو انتخابی امیدواروںکے حق میں استعمال کرنا یا انتخابی اخراجات کو مقررہ حدود کے اندر نہ رکھنا یا انتخابی مہم کے دوران ضروری شرائط کی پابندی نہ کرنا جیسے معاملات شامل ہیں۔ انکے بارے میں بھی الیکشن کمشن پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ میں دی گئی شرائط اور قواعد و ضوابط پر سختی سے عمل کروا سکتا ہے۔ غرضیکہ بہت سارے امور ایسے ہیں جن کی پابندی کر کے ہم انتخابی نظام کو بہتر بنا سکتے ہیں اس کیلئے انتخابات کے التوا کی بجائے انتظامیہ کا غیر جانبدار ہونا اور الیکشن کمشن کا فعال ہونا ضروری ہے۔

ای پیپر دی نیشن