مسلم لیگ کے یوم تاسیس کی تقریب میں لیگی دھڑوں کے اتحاد کیلئے قرارداد کی متفقہ منظوری.... اپنی اناﺅں کے اسیر لیگی قائدین اب ملک اور جمہوریت کی بقاءکا سوچیں


مسلم لیگ کے 106ویں یوم تاسیس کے موقع پر منعقد کی گئی مسلم لیگ ہم خیال پنجاب کی تقریب میں اتوار کے روز ایک قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی جس میں تمام مسلم لیگی دھڑوں کو متحد کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے مسلم لیگی قائدین پر زور دیا گیا کہ وہ ملکی حالات کے پیش نظر اکٹھے ہو کر الیکشن لڑیں تاکہ متحدہ مسلم لیگ اقتدار میں آکر ملک کو سنگین بحرانوں سے نکال سکے۔ یہ قرارداد تقریب میں مسلم لیگ ہم خیال‘ فنکشنل لیگ اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماﺅں اور کارکنوں نے مشترکہ طور پر پیش کی جسے متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔ قرارداد میں باور کرایا گیا کہ 2008ءکے انتخابات میں تمام مسلم لیگی دھڑوں کو ملنے والے مجموعی ووٹ کسی بھی سیاسی جماعت سے زیادہ ہیں اس لئے متحد ہونے کے بعد مسلم لیگ آئندہ انتخابات میں کلین سویپ کر سکتی ہے۔
ڈھاکہ کے مقام پر 1906ءمیں نواب وقارالملک‘ نواب محسن الملک‘ نواب سلیم اللہ خان اور برصغیر کے مسلمانوں کے دیگر قائدین کی قیادت و سرپرستی میں آل انڈیا مسلم لیگ ایک خاص مشن اور جذبے کے تحت قائم کی گئی جس کا بنیادی مقصد مسلمانوں کو انگریز اور ہندو کے استحصال سے نجات دلا کر بطور اقلیت انکی مذہبی آزادیوں کو یقینی بنانا اور انکے معاشی و اقتصادی حالات بہتر بنا کر انکے تشخص کو تسلیم کرانا تھا۔ اس مشن کی تکمیل اور مقاصد کے حصول کیلئے مولانا محمدعلی جوہر اور مولانا ظفرعلی خان بھی آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر آگئے اور دیکھتے ہی دیکھتے آل انڈیا مسلم لیگ نے کانگریس کے مقابلے میں اپنی سیاسی حیثیت اور الگ تشخص تسلیم کرالیا جبکہ علامہ اقبال کی زیر قیادت آل انڈیا مسلم لیگ میں مسلمانوں کے الگ تشخص کیلئے الگ خطہ¿ ارضی کے حصول کی سوچ کو باقاعدہ تحریک کے قالب میں ڈھالا گیا اور عملی جدوجہد کی خاطر مسلم لیگ کی قیادت کیلئے علامہ اقبال کی نگاہِ دوراندیش نے قائداعظم محمدعلی کا انتخاب کیا جو اس وقت برصغیر کے مسلمانوں کے حالات سے مایوس ہو کر مستقل طور پر برطانیہ میں قیام پذیر ہو چکے تھے۔ علامہ اقبال نے انہیں مراسلہ بھجوا کر ہندوستان واپس بلوایا اور انکے سامنے مسلمانوں کے الگ خطہ ارضی کا ایجنڈہ پیش کیا‘ مگر خود علامہ اقبال کی زندگی نے وفا نہ کی اور وہ اس ایجنڈے کے تحت عملی جدوجہد کے آغاز سے قبل ہی 1938ءمیں اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئے جس کے بعد قائداعظم نے مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی اور علامہ اقبال کی سوچ اور انکی وضع کردہ گائیڈ لائن کے مطابق عملی جدوجہد کا آغاز کیا۔ نتیجتاً 23 مارچ 1940ءکو منٹوپارک لاہور میں منعقدہ مسلم لیگ کے کنونشن میں قرارداد لاہور منظور کرکے برصغیر کے مسلمانوں کی تائید و حمایت سے قیام پاکستان کی جدوجہد کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔ یہی قراردادلاہور بعدازاں قرارداد پاکستان بنی جس کی روشنی میں قائداعظم کی زیر قیادت شروع ہونیوالی تحریک پاکستان نے صرف سات سال کے عرصہ میں شاطر ہندو قیادت کی سازشوں کا توڑ کرتے ہوئے تشکیل پاکستان کو ممکن بنا دیا۔
برصغیر کے مسلمانوں کا جو جذبہ دو قومی نظریہ کے تحت تحریک پاکستان کے ذریعے تخلیق پاکستان پر منتج ہوا‘ اگر قیام پاکستان کے بعد وہی جذبہ اور مسلم لیگ کی صفوں میں اتحاد برقرار رہتا تو آج پاکستان ایک خوشحال‘ ترقی یافتہ اور مستحکم پاکستان کی شکل میں اقوام عالم میں بلند اور نمایاں مقام حاصل کر چکا ہوتا۔ بدقسمتی سے قیام پاکستان کے ایک سال بعد ہی قائداعظم کے انتقال سے مسلم لیگ کی صفوں میں اتحاد برقرار نہ رہ سکا اور قائداعظم نے اپنی زندگی میں جن ”کھوٹے سکوں“ کی نشاندہی کی تھی‘ انکی ریشہ دوانیوں اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ گٹھ جوڑ نے پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کو ہندو اور انگریز کے ٹوڈی مفاد پرست اور اقتدار پرست طبقات کے ہاتھوں کاکھلونا بنا دیا چنانچہ انکے ہاتھوں مسلم لیگ کا انتشار ہی نظریہ پاکستان کے تصور کے مخالف عناصر کو تقویت پہنچانے کا باعث بنا اور پھر طالع آزما جرنیلوں نے مسلم لیگ کو اپنے آمرانہ اقتدار کو سہارا دینے اور مستحکم بنانے کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اس جماعت کا یہی المیہ اسکے دھڑوں میں تقسیم ہونے کے باعث آج ہمارا قومی المیہ بن چکا ہے مگر اپنی اپنی اناﺅں کے اسیر مسلم لیگی قائدین نے ملک کے دولخت ہونے اور چار بار فوجی آمریت مسلط ہونے کے واقعات سے ابھی تک کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔
یہ حقیقت ہے کہ تخلیق پاکستان کے بعد مسلم لیگ دھڑے بندیوں میں تقسیم نہ ہوتی اور ایک ہی پلیٹ فارم پر متحد رہتی تو بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے مفاد پرست سیاست دانوں کو نظریہ¿ پاکستان کے برعکس اپنی سوچ کو پروان چڑھانے کا کبھی موقع نہ ملتا۔ ملک میں دو جماعتی نظام کے تصور کے تحت جمہوری نظام کے استحکام کی منزل بھی حاصل کرلی جاتی اور ہماری سالمیت کے درپے دشمن کو ہماری کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کا بھی موقع نہ ملتا۔ مگر ملک کی سالمیت کے حوالے سے اتنا کچھ گنوانے کے بعد بھی گروپوں میں تقسیم مسلم لیگی قائدین حالات کے تقاضوں کا ادراک نہیں کر سکے‘ جن کی اناﺅں اور ایک دوسرے کو قبول نہ کرنے کی روش نے مسلم لیگ کے ووٹ بنک کو تقسیم کرکے آج تک خالص مسلم لیگ کے اقتدار کی نوبت نہیں آنے دی۔ اس تناظر میں مسلم لیگ کے یوم تاسیس کے موقع پر مسلم لیگوں کے اتحاد کیلئے منظور کی گئی قرارداد میں یہ درست تجزیہ کیا گیا ہے کہ اگر تمام مسلم لیگی دھڑے باہم متحد ہو کر آئندہ انتخاب لڑیں تو مسلم لیگ کو کلین سویپ حاصل ہو سکتی ہے مگر جن مسلم لیگی قائدین کو اس صورتحال کا ادراک کرنا چاہیے۔ انہوں نے تو مسلم لیگ کے یوم تاسیس کے موقع پر اپنے پلیٹ فارم پر گزشتہ روز کوئی بڑی تقریب منعقد کرنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی جس سے انکی مسلم لیگ کے ساتھ وابستگی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مسلم لیگ ہم خیال پنجاب کے اجلاس میں بھی مسلم لیگی دھڑوں کے اتحاد کی سوچ سامنے آنے پر اجلاس میں اس مقصد کیلئے قرارداد منظور کرانے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ اس اجلاس میں شریک مسلم لیگی دھڑوں کا کوئی مرکزی لیڈر یا اہم عہدے دار شریک نہیں تھا۔ اب 5 جنوری کو مسلم لیگ (ن) کی مرکزی جنرل کونسل کا اجلاس طلب کیا گیا ہے جس میں آئندہ عام انتخابات میں حصہ لینے کی حکمت عملی طے کی جائیگی۔ کیا اس اجلاس میں مسلم لیگی دھڑوں کو متحد کرنے کیلئے عملی پیش رفت کا بھی سوچا جائیگا؟ جبکہ یہ معاملہ تو اس اجلاس کے ایجنڈے میں شامل ہی نہیں۔
مسلم لیگ ہم خیال کے اجلاس میں مسلم لیگی دھڑوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کا جذبہ اپنی جگہ مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ میاں نواز شریف مسلم لیگوں کے اتحاد کی کسی کوشش میں نہ صرف خود کوئی دلچسپی نہیں لیتے بلکہ چودھری برادران کیلئے عملاً دروازے بند کر چکے ہیں۔ فنکشنل لیگ کے قائد پیر صاحب پگارا شریف مسلم لیگ کے اتحاد کی آرزو لئے اس دنیا سے رخصت ہو گئے جن کے بعد انکے صاحبزادے پیرپگارا صبغت اللہ راشدی نے مسلم لیگوں کے اتحاد سے متعلق ان کا مشن سنبھالا ہے۔ مگر مسلم لیگ (ن) کے قائدین کی جانب سے پذیرائی ہونے سے ہی اس مشن کی تکمیل ہو سکتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ملک میں سیاسی محاذ آرائی کی موجودہ صورتحال میں جس طرح غالب اکثریت والے دائیں بازو کے ووٹ کو تقسیم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ میاں صاحبان کو اس کا بھی احساس نہیں ہو رہا اور وہ تنہاءپرواز پر ہی ڈٹے ہوئے ہیں جس کا نتیجہ بھی دیوار پر لکھا نظر آرہا ہے۔ اگر مسلم لیگ ہم خیال کے زیر اہتمام مسلم لیگ کے تاسیسی اجلاس میں لیگی دھڑوں کے اتحاد کا ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے تقاضا کیا گیا ہے تو مسلم لیگ (ن) اور (ق) کے قائدین کو اپنی اناﺅں سے باہر نکل کر ملک اور جمہوریت کی بقاءکی خاطر کشادہ دل سے ایک دوسرے کو قبول کرتے ہوئے آئندہ انتخابات سے پہلے متحد ہ مسلم لیگ کی بنیاد رکھ دینی چاہیے ورنہ مسلم لیگی دھڑے اقتدار کی کشمکش میں دوسروں کے ہاتھوں استعمال ہوتے رہیں گے اور وہ عناصر قومی سیاست پر حاوی ہو جائینگے جنہیں ”دوبڑی پارٹیوں“ کا پاکستان میں Two party سسٹم قائم کرنے کے خیال پرگھِن آتی ہے۔ مسلم لیگی قائدین کو سوچنا چاہیے کہ اب مزید کھونے کیلئے انکے پاس کچھ بچا بھی ہے یا نہیں؟

ای پیپر دی نیشن