ناصرجمشید اور جنید خان شاباش۔ آفریدی کا ناحق غصہ

Jan 01, 2013

حافظ محمد عمران

پاکستان نے ون ڈے سیریز کا بھی کامیاب آغاز کر دیا ہے۔ پہلے ون ڈے کی فتح میں دو نوجوان کھلاڑیوں ناصر جمشید اور جنید خان نے اہم کردار ادا کیا۔ جنید خان نے مضبوط بھارتی بیٹنگ لائن کو تہس کیا تو ناصر جمشید بھی خوب جم کر کھیلے اور تھری فگراننگز سکور کر کے پاکستان کی فتح کو یقینی بنا دیا۔ دونوں بائیں ہاتھ کے کھلاڑی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے دونوں کا مستقبل تابناک دکھائی دیتا ہے۔ ناصر کے پاس شاٹس کی کمی نہیں ہے۔ وہ ایک کامیاب کھلاڑی بن سکتا ہے تاہم اس کی فٹنس پر سوالیہ نشان نظر آتے ہیں۔ بالخصوص وکٹوں کے درمیان رننگ اور فیلڈنگ کے شعبے میں اسے انفرادی طور پر بہت زیادہ محنت اور توجہ کی ضرورت ہو گی۔ بین الاقوامی سطح کی کرکٹ میں زیادہ دیر تک اِن رہنے اور عام کھلاڑی سے غیر معمولی کھلاڑی بننے کا سفر وہ اعلیٰ معیار کی فٹنس کے بغیر طے نہیں کر سکتے۔ جنید خان بھی باصلاحیت ہے اور بین الاقوامی کرکٹ میں آمد سے اب تک اس کی کارکردگی میں مسلسل بلندی کی جانب مائل ہے۔ اس کو مناسب مواقع اور اعتماد دینے کی ضرورت ہے۔ کھلاڑی کے لئے فٹنس کو برقرار رکھنا اور اپنے آپ کو بروقت کرکٹ کے لئے تیار رکھنا اس کی اپنی ذمہ داری ہے۔ اس شعبے میں جنید خان کو بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یونس خان نے بھی پہلے ون ڈے میں اپنا کردار خوب نبھایا۔ مشکل وقت میں ناصر جمشید کے ساتھ وکٹ پر کھڑے رہے اور نصف سینچری سکور کر کے ٹیم کو دباﺅ سے نکالا۔ دوسرا ون ڈے کلکتہ میں کھیلا جائیگا۔ انڈیا سیریز میں کم بیک کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان کو اپنی برتری کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے، عمر اکمل کو ون ڈے ٹیم میں شامل کر کے بیٹنگ آرڈر کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ عمر اکمل کے ساتھ اگر کوئی مسئلہ ہے تو ٹیم انتظامیہ اور کوچنگ سٹاف کو اس کے حل کےلئے خصوصی طور پر کام کرنا ہوگا۔ وہ ایک بہترین کھلاڑی ہے لیکن کھیل کے علاوہ دیگر معاملات میں الجھنے سے وہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق پرفارم نہیں کر پایا۔ ٹیلنٹ کو ضائع ہونے سے بچانا ضروری ہے۔ احمد شہزاد بھی باصلاحیت ہے اس کے لئے بھی خصوصی حکمت عملی تیار کرنا ہو گی۔ اظہر علی اور یونس خان کی موجودگی میں تیزی سے رنز بنانے کے معاملے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ٹوئنٹی ٹوئنٹی میچ کھیلنے والے کھلاڑی وطن واپس پہنچ چکے ہیں۔ ان کھلاڑیوں میں ”بوم بوم“ کے نام سے عالمی شہرت رکھنے والے شاہد آفریدی بھی شامل ہیں جو ائرپورٹ پر اپنی کارکردگی کے حوالے کئے گئے سوال پر صحافی سے الجھ پڑے اور غصے میں آ گئے۔ یعنی الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے، شاہد آفریدی کی کارکردگی ایک عرصے سے غیر معیاری ہے۔ وہ اپنے آخری دس ون ڈے میچوں میں 460 رنز کے عوض صرف سات وکٹیں حاصل کر سکے ہیں۔ بیٹنگ میں آخری دس ون ڈے میچوں میں صرف76 رنز سکور کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ آخری دس ٹوئنٹی ٹوئنٹی میچوں میں شاہد آفریدی نے 93 رنز سکور کئے ہیں اور باﺅلنگ میں وہ صرف سات کھلاڑیوں کو آﺅٹ کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ یہ صرف آخری دس میچوں کی کارکردگی ہے اس سے پیچھے بھی جائیں گے تو معاملہ اس سے مختلف نہیں ہے۔شاہد آفریدی صحافیوں کے سوالات کا غصہ کرنے کے بجائے حقیقت کا سامنا کریں۔ اپنی کارکردگی کو بہتر بنائیں اور اگر وہ اب ایسا نہیں کر سکتے تو پھر وسیع تر قومی اور کرکٹ مفاد میں کسی نوجوان کھلاڑی کے لئے جگہ چھوڑ دیں، یہی ان کےلئے بھی بہتر ہو گا اور پاکستان کی کرکٹ کےلئے بھی سلیکٹرز کو بھی ہوش آ جانی چاہئے۔ شاہد آفریدی کی وجہ سے نئے باصلاحیت نوجوانوں کا مستقبل داﺅ پر نہیں لگانا چاہئے۔ تجربے اور دباﺅ کی وجہ سے کب تک سینئرز پر انحصار کرتے رہیں گے۔ پاکستان کی کرکٹ کو آگے بڑھانے، مستقبل کو بہتر بنانے اور بین الاقوامی سطح پر کامیابیوں کےلئے نوجوانوں کو بروقت موقع دینے اور سینئرز کو عزت کے ساتھ خدا حافظ کہہ دینا چاہئے۔ ایسی مضبوط اور مربوط پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے جس سے نا تو جونیئرز کی حوصلہ شکنی اور حق تلفی ہو اور ناہی سینئرز کی عزت پر حرف آنے کا اندیشہ ہو۔

مزیدخبریں