دوبار آئین توڑنے والے آمر پرویز مشرف نے دہائی دی ہے کہ ’’مجھے انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے‘ میرے خلاف غداری کیس پر پوری فوج ناراض ہے اور وہ میری پشت پر کھڑی ہے‘‘ دوسری طرف محترمہ بینظیر بھٹو کی برسی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سابق صدر اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ جب سے پاکستان بنا ہے ’’بلا‘‘ آکر دودھ پی جاتا ہے‘ نواز شریف قابو میں آئے ہوئے ’’بِلے‘‘ کو نہ چھوڑیں‘ ہم ’’بلِے‘‘ کو انجام تک پہنچانے میں ان کے ساتھ ہیں، پرویز مشرف کے دعویٰ پر پاک فوج کی طرف سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا، جبکہ سیاسی حلقے مشرف کے اس دعویٰ کو گزرے سال 2013 کا سب سے بڑا جھوٹ قرار دے رہے ہیں‘ 9 ماہ کی خاموشی کے بعد بات بات پر ’’مکا‘‘ لہرانے والا کمانڈو ایک بار پھر ان ایکشن ہے‘ ملک سے اڑان بھرنے کیلئے وہ پھڑ پھڑا رہا ہے‘ اس کا یہ کہنا کہ میں یہ آرمی چیف پر چھوڑتا ہوں کہ وہ میرے دفاع میں کہاں تک جا سکتے ہیں، مشرف کے دعووں اور خوابوں کی کیا تعبیر نکلتی ہے وہ عدالت سے رہا ہوتے ہیں یا انہیں سزا ملتی ہے۔
یہ سب کچھ آنے والا وقت ہی بتائے گا، مگر اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ انہوں نے اپنے ان بیانات سے اپنی غلطیوں‘ کوتاہیوں اور گناہوں کا بوجھ پاک فوج کی طرف منتقل کرنے کی کوشش کی ہے، حالانکہ اس وقت پلوں سے بہت سا پانی گزر چکا ہے، جبکہ فوجی قیادت تیسرے ہاتھ میں منتقل ہو چکی ہے، مسلح افواج کا اپنے سابق سربراہ سے فاصلہ اسی رفتار سے بڑھ چکا ہے وہ اب قصہ پارینہ بن چکے ہیں اقتدار میں بھی فوج میں کس قدر مقبول تھے، یہ سب حقیقتیں کیا ان کے ذہن سے محو ہو چکی ہیں، اس کے سینئر اور جونیئر اور دیگر ساتھی بھی ان کی سرگرمیوں کے بارے میں مکمل طور پر مطمئن نہیں رہے، ان کے عہد میں ان پر 2 قاتلانہ حملے ہوئے، جن کا ’’کھرا ‘‘کسی نہ کسی طرح پاک فوج کے ان اہلکاروں سے جا ملتا ہے جو ان سے ناراض تھے، اور انکی پالیسیوں سے اتفاق نہیں رکھتے تھے، سابق آمرنے یہ کہہ کر کہ فوج میری پشت پر ہے اپنے جرائم کی فہرست میں ایک اور جرم کا اضافہ کرلیا ہے، قانونی حلقوں کے مطابق ان کا یہ دعویٰ بلا شبہ فوج کو اکسانے کے مترادف ہے۔
’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ ان کا نعرہ تھا‘ اگر پاکستان انہیں عزیز ہے تو وہ اسے نئی آزمائشوں میں مبتلا کرنے کی بجائے بہادری اور دلیری سے مقدمات کا سامنا کریں۔
پرویز مشرف نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے نواز شریف کو اسیری کے دوران جیل میں بہت ساری سہولتیں دی تھیں یہ بھی گدھے کے سرپر سینگوں کی طرح سفید جھوٹ ہے، کیونکہ ساری قوم جانتی ہے کہ نواز شریف کو اوائل میں نظر بندی کے دوران جیل کی جس کوٹھڑی میں رکھا گیا وہ مکمل طور پر اندھیری تھی وہاں تو سورج کی ایک کرن بھی نہیں جا سکتی تھی ان کی کوٹھڑی میں سانپ چھوڑے گئے، ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کرنے کے دوران طیارہ میں انہیں ہتھکڑیوں سے جکڑ دیا جاتا رہا۔ کاش پرویز مشرف اس جیل میں صرف چند دن گزار کر دکھائیں جہاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے تھے۔
ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے یہ ستم اس شخص پر ڈھائے جس نے اسے فوج کا سربراہ اور پھرچیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی بنایا، نواز شریف نے تو اعلیٰ ظرف کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس ڈکٹیٹر کو معاف کردیا ہے مگر اس کیخلاف کارروائی اعلیٰ ترین عدلیہ کے حکم پر ہو رہی ہے۔ باقی جہاں تک آصف زرداری کا یہ کہنا ہے کہ نواز شریف قابو میں آئے ہوئے ’’بلیِ‘‘ کو نہ چھوڑیں یہ دو رخی ان کا نیا ٹوپی ڈرامہ ہے کیونکہ یہی آصف زرداری تھے جنہوں نے اس خونخوار ’’بلیِ‘‘ کو گارڈ آف آنر دیکر رخصت کیا تھا اب وہ کس منہ سے ’’بلیِ‘‘ کو نہ چھوڑنے کا وا ویلا مچا رہے ہیں۔
زردای کو یاد رکھنا چاہئے کہ قوم ’’بلیِ ‘‘ کیساتھ ان ’’باگڑ بلوں‘‘ کا محاسبہ بھی چاہتی ہے جنہوں نے سابقہ دور میں کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم کئے، محترمہ بینظیر بھٹو کی برسی کا حاصل کلام آصف علی زرداری کے فرزند بلاول بھٹو زرداری کا خطاب تھا‘ انکی تقریر تضادات کا مجموعہ تھی ایک طرف انہوں نے کہا کہ اگر جمہوریت کو خطرہ ہوا تو ہم انکل نواز شریف کیساتھ کھڑے ہونگے، دوسری طرف انہوں نے کہا کہ ’’شیر‘‘ ملا عمر جیسا جعلی خلفیہ بننا چاہتا تھا اس نے بھی وہی دودھ پیا ہے جو دہشت گردوں نے پیا تھا، اسی طرح انہوں نے تحریک انصاف کے قائد عمران خان کو ’’بزدل خان‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے حالیہ قومی الیکشن میں اپنی پارٹی کی شکست کی ذمہ داری پنجابی اسٹیبلشمنٹ پر ڈال دی ہے۔
بلاول کی تقریر پر ایک دوست نے خوب تبصرہ کیا ہے کہ ’’بچہ ابھی کچا‘‘ ہے۔ بلاول کو چاہئے کہ وہ بڑوں کا تمخسر اڑانے کی بجائے پیپلزپارٹی کو زندہ کرنے کے جتن کرے۔ آج پیپلزپارٹی کے بیشتر کارکن روٹھ کر نواز لیگ اور تحریک انصاف میں جا چکے ہیں، وہ اس ڈوبتی کشتی کو سنبھالا دے۔
بلاول اپنے والد کی طرح سیاست کے مولا جٹ نہ بنیں۔ بلاول کو اگر قوم کی رہنمائی کرنی ہے تو وہ طفلانہ حرکتوں سے باز رہے کیونکہ وہ آکسفورڈ کا پڑھا لکھا نوجوان ہے، وہ نفرتیں بڑھانے کی بجائے انہیں ختم کرنے پر توجہ دے۔ یہی اچھی اور سچی سیاست کا چلن ہے۔ اگر انہوں نے یہی وطیرہ رکھا تو وہ دن دور نہیں جب پنجاب‘خیبر پختوا‘ بلوچستان کی طرح سندھ سے بھی پیپلزپارٹی کا مکمل صفایا ہو جائیگا۔
زرداری ‘ بلاول کا ڈرامہ اور مشرف کی دہائی
Jan 01, 2014