میں کبھی مشرف کے حق میں نہیں رہا۔ شاید میں واحد کالم نگار ہوں کہ مشرف کے گورنر پنجاب خالد مقبول نے جس کے خلاف کارروائی کی تھی۔ مگر مجھے اچھا نہیں لگا کہ جنرل مشرف جو آرمی چیف تھا صدر پاکستان تھا۔ اسے غدار کہا جا رہا ہے۔ اس نے پاکستان کیلئے بھارت کے خلاف دو جنگیں لڑیں‘ اس نے آئین توڑ کر غیر آئینی اقدام کیا تھا۔ وہ قوم کا مجرم ہے بلکہ سیاست کا مجرم ہے۔ چودھری شجاعت نے ٹھیک کہا ہے کہ اس کے خلاف مقدمہ قانونی سے زیادہ سیاسی ہے۔ ساری واردات ایک غیر فوجی اور غیر سیاسی وزیراعظم شوکت عزیز کی تھی جو صدر مشرف کے گلے پڑ گئی۔ تب اس کی گردن میں سریا تھا۔ یہ سریا کئی سیاسی ’’جمہوری‘‘ حکمرانوں کی گردنوں میں بھی ہوتا ہے۔ ہمارے حکمران ایک جیسے ہوتے ہیں۔ فوجی ہوں یا سیاسی ہوں۔ چودھری شجاعت کی یہ بات مذاق میں لی جاتی ہے مگر اب اسے سنجیدگی سے لینا چاہئے۔ ’’مٹی پاؤ‘‘ نوازشریف اپنی پوری فیملی کے ساتھ سعودی عرب چلے گئے تھے۔ تب بھی بڑی افواہیں بھربھری مٹی کی طرح اڑتی پھرتی تھیں۔ اس بات کو سمجھیں جو چودھری شجاعت کہہ رہے ہیں کہ مشرف کے خلاف مقدمہ حکومت کیلئے کانٹوں کا تاج بن جائے گا۔ حکومت سے چمٹے ہوئے لوگ پھولوں کی سیج کو غلط فہمیوں کا سٹیج نہ بنائیں۔ چودھری شجاعت نے کہا کہ ایمرجنسی کیلئے سب سے مشورہ کیا گیا تھا۔ کہتے ہیں کہ کابینہ اور اسمبلی نے ایمرجنسی کو منظور نہ کیا تھا تو اب مشرف پر مقدمہ بھی کابینہ اور اسمبلی کی منظوری کے بغیر چلایا جا رہا ہے۔ اس طرح ایسا نہ ہو کہ پورے ملک میں پھر کوئی ایمرجنسی نہ لگانا پڑے۔ ایمرجنسی سیاسی حکومت بھی لگا سکتی ہے۔ چودھری صاحب نے مشرف سے ملاقات کیلئے رضامندی کا اظہار کیا ہے۔ میری گزارش ہے کہ وہ مشرف کے علاوہ نوازشریف سے بھی ملاقات کریں۔ یہ بڑی بات ہے کہ انہوں نے مٹی پاؤ کے بعد نوازشریف کی حمایت کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ اب یہ نوازشریف پر ہے کہ وہ چودھری اور زرداری میں سے کس کی حمایت کو قبول کرتے ہیں۔
زرداری نے اب مشرف کو بلہ کہا ہے۔ اس کیلئے پاک فوج کو بھی درمیان میں لانے کا اشارہ ہے۔ یہ بتایا جائے کہ بلہ کون ہے اور باگڑ بلہ کون ہے۔ اس کیلئے پرویز رشید کی بات بہت بامعنی اور معنی خیز ہے کہ یہ مشرف اور زرداری ہی جانتے ہیں؟
پرویز رشید سمجھدار آدمی ہیں۔ شاید وہ زرداری کو بھی سمجھتے ہیں۔ جاوید ہاشمی نے تو ابھی پی ایچ ڈی نہیں کی ہے۔ پرویز رشید نے اس کے بغیر ہی کام چلا لیا ہے۔ پرویز رشید چودھری شجاعت سے ضرور ملیں اور پھر نوازشریف کو اصل صورتحال سے آگاہ کریں۔ چودھری شجاعت کی بات سابق صدر جنرل (ر) مشرف نے مانی ہوتی تو وہ آج اس حال کو نہ پہنچتے۔ جب حکمرانوں پر آخری وقت آتا ہے تو ان کے ذہن و دل کے سب دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ جب سپریم کورٹ کے فل بنچ نے چیف جسٹس چودھری کے حق میں فیصلہ دے دیا تو چودھری شجاعت نے مشرف کو مشورہ دیا کہ جاؤ اور چیف جسٹس سے جپھی ڈال لو۔ مشرف نے تکبر سے پوچھا کہ یہ جپھی کیا ہوتی ہے؟ حکمران نجانے کیوں تدبر کی بجائے تکبر کا رویہ اختیار کر لیتے ہیں۔ چودھری صاحب نے دل میں سوچا کہ جس حکمران کو جپھی کا پتہ نہیں ہے اسے حکومت کرنے کا کیا حق ہے؟ تو پھر پرویز رشید ٹھیک کہتا ہے کہ ہم نے مشرف کو مُکا لہراتے ہوئے سنا۔ پستول تانے ہوئے سنا‘ اب ہم اسے عدالت میں سننا چاہتے ہیں۔ اب بھی چودھری شجاعت مشرف کیلئے مثبت انداز میں بات کر رہے ہیں مگر وہ مشورہ نوازشریف کو دے رہے ہیں۔ تب مشرف حکمران تھے اب نوازشریف حکمران ہیں۔ دونوں کیلئے چودھری صاحب کا مشورہ درست اور ہمدردانہ ہے۔
جنرل (ر) مشرف کیلئے جنرل (ر) کیانی کا مشورہ بھی بروقت اور برمحل تھا کہ آپ پاکستان واپس نہ آؤ۔ زرداری نے بھی کہا ہے کہ ہم نے مشرف کو واپس آنے کیلئے نہ کہا تھا۔ تو پھر کس نے کہا تھا؟ فیس بک والوں کیلئے تو ایک بات ہے۔ یہ وہ قوتیں ہیں جو پاکستان‘ پاک فوج اور سیاسی حکومت تینوں کے خلاف ہیں۔ پہلا مقصد پاک فوج کی تضحیک اور توہین کرنا ہے۔ جنرل (ر) مشرف کے خلاف بات کو بار بار پاک فوج کی طرف لے جاتے ہیں۔ یہ زیادتی ہے۔ میڈیا حکومت اور سیاست دانوں کو احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ پاک فوج کو اس مقام پر نہ لے آیا جائے کہ بات بگڑ جائے۔ حکمران اور سیاستدان موج کریں۔ فوج کو اپنا کام کرنے دیں۔
جنرل (ر) مشرف پہلے سنجیدہ نہ تھے۔ اب گبھرائے ہوئے ہیں۔ ’’بین الاقوامی دوست کچھ کریں تو ان کی مرضی ہے‘‘ میں کسی کو نہ کہوں گا۔ مشرف صاحب بتائیں کہ اور کہنا کیا ہوتا ہے؟ غداری کیس میں اپنا دفاع آرمی چیف پر چھوڑتا ہوں۔ جنرل (ر) اسلم بیگ نے کہا ہے کہ مشرف کے حوالے سے فوج ناراض نہیں ہے مگر انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اکیلے مشرف پر مقدمہ مناسب نہیں ہے۔ ججز جرنیل سیاستدان اور سول سوسائٹی کے بھی کئی لوگ ان کے ساتھ شریک تھے۔ جنرل (ر) حمید گل نے صاف کہہ دیا ہے کہ مشرف فوج کو رسوا نہ کریں۔ جنرل (ر) گل جانتے ہیں کہ پاک فوج کو رسوا کرنے کیلئے اور بھی کئی لوگ ہیں۔ مشرف پر مقدمہ کا تو ایک بہانہ ہے۔ ان کے پاس اور بھی بہانے ہیں؟
پاکستان کے اکثر لوگ اور حکمران بھی جانتے ہیں کہ جنرل (ر) مشرف صاف بچ کر نکل جائیں گے۔ اس بار انہیں گارڈ آف آنر شاید پیش نہ کیا جا سکے۔ سیاستدانوں نے جنرل (ر) یحییٰ کو بھی 21 توپوں کی سلامی دے کے پاکستانی جھنڈے میں لپیٹ کر سپرد خاک کیا تھا۔ اس موقع کیلئے بھی چودھری صاحب کا ’’مٹی پاؤ‘‘ کا محاورہ کتنا برمحل ہے۔ محلوں میں رہنے والے غور کریں۔ مگر حکمرانوں نے غور کرنے کیلئے بھی ملازم رکھے ہوتے ہیں۔ وہ ملازم اور ملزم میں فرق نہیں کرتے۔ تو پھر کیا غور و فکر ہو گا۔ فکر سے ان کی مراد فکرمندی ہے۔ جب تک وہ حکمران ہوتے ہیں کسی طرح کی فکرمندی ان کے نزدیک نہیں آ سکتی۔ اس کام کیلئے عوام کیا کم ہیں۔ جو بھی چھوٹا موٹا حکمران اور سیاستدان ہے۔ وہ کہتا ہے میں 18 کروڑ عوام کا نمائندہ ہوں۔ انہیں پتہ ہی نہیں کہ نمائندہ کیا ہوتا ہے۔
سعودی عرب کے شہزادہ سعود الفیصل کس کے نمائندے ہیں۔ وہ آ رہے ہیں۔ باہمی دلچسپی کے امور پر پاکستانی حکمرانوں سے بات کریں گے۔ کبھی سمجھ میں نہیں آیا کہ وسیع تر عوامی مفاد اور باہمی دلچسپی کے امور کیا ہوتے ہیں۔ یہ صرف امور حکومت والے ہی جانتے ہیں۔ سعود الفیصل شاہ عبداللہ کا کوئی خاص پیغام لا رہے ہیں۔ یہ تو نہیں کہ اب مشرف صاحب خاصے خوار ہو گئے ہیں۔ نوازشریف اس سے تو کم ہی ہوئے تھے؟ سیاست بھی خاصی بدنام کی گئی تھی۔ اب فوج کو بھی اچھا خاصا بدنام کر لیا گیا ہے۔ اب بس کرو۔ طے شدہ باتوں کو اس طرح الجھانا اور بڑھانا حکومت کیلئے ٹھیک نہیں ہے۔ مشرف کو کچھ نہیں ہو گا۔ اس بہانے فوج کو بھی کوئی سبق دے دیا گیا ہے۔ حکمران فوجی ہوں یا سیاسی ہوں۔ وہ کوئی سبق سیکھنے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔ وہ بچے تو نہیں ہیں۔ ان کا کام سبق سکھانا ہے۔
زرداری اور بلاول تو سبق یاد کرانے کیلئے دہائی دے رہے ہیں۔ زرداری نے نجانے کسے بلہ کہہ کر شیر کو ڈرانے کی کوشش کی ہے۔ شیر سیاسی جنگل کا بادشاہ ہوتا ہے۔ جمہوریت تو دوسرے ’’جانوروں‘‘ کیلئے ہے۔ ہم نے تو نہ جمہوریت کا پھل پایا نہ آمریت کا کوئی ثمر عوام تک پہنچا۔ یہاں وقفے وقفے سے آمرانہ جمہوریت اور جمہوری آمریت کا قبضہ رہا ہے۔ دونوں کو امریکی حمایت پر بھروسہ رہا ہے۔
ہم نے مشرف کی مخالفت کی۔ یہ بھی مخالفت کی کہ اسے جانے دیں۔ کسی نئے زمانے کی نوید لائیں بلکہ نیا زمانہ لے کے آئیں۔ نوازشریف آ چکے ہیں مگر میں کہتا ہوں وہ نئے سرے سے آئیں۔ موروثی سیاست و حکومت سے جان چھڑائیں۔ سچی جمہوریت کیلئے لوگ ترس گئے ہیں۔ ان بے چاروں کو سچی آمریت بھی نہ ملی۔ 18 کروڑ عوام کتنے بدقسمت ہیں 18 سو حکام بھی خوش قسمت نہیں ہیں۔