لاہور (محمد دلاور چودھری) ورکنگ باؤنڈری پر بھارت کی طرف سے ’’فوجی سفارتکاری‘‘ کے بہانے ہونے والے بدترین واقعہ نے پاکستانی حکومت‘ سکیورٹی اداروں اور قوم کو پھر یہ احساس دلا دیا ہے کہ بھارت پاکستان کو یکسوئی کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں لڑنے دینا چاہتا۔ اس لئے ہم دہشت گردی کے خلاف تمام تر اقدامات کرتے ہوئے اپنی مشرقی سرحد کو کسی بھی صورت فراموش نہیں کر سکتے۔ اگرچہ بھارت کی طرف سے اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ ایک مستحکم پاکستان اس کے مفاد میں ہے لیکن بھارت کی سٹرٹیجک پالیسیوں کے ذریعے عملی طور پر کبھی اس کا اظہار نہیں ہوا بلکہ عملی طور پر ہمیشہ یہ باور کرایا گیا ہے کہ بھارت کی حکمران سیاسی جماعت کی تمام تر ناکامی اور کم ہوتی ہوئی مقبولیت کا ایک ہی علاج ہے اور وہ پاکستان کے ساتھ سرحد کو متواتر ’’گرم‘‘ رکھنا۔ اس طرح بھارتی فوج نے مسئلہ کشمیر تو ایک طرف سیاچن اور سرکریک کے تنازعات کو حل کرنے کی بھی کبھی حوصلہ افزائی نہیں کی بلکہ جب بھی دونوں ملکوں کی سطح پر ان تنازعات پر مذاکرات ہونے لگے بھارتی فوج کی طرف سے کھلم کھلا اپنی حکومت کو یہ پیغامات دئیے گئے کہ پاکستان سے ان تنازعات پر بالکل بھی مذاکرات نہ کئے جائیں۔ ان حالات میں ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کو صحیح معنوں میں سرجوڑ کر بیٹھنے اور ایک ایسی پالیسی وضع کرنے کی ضرورت ہے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ اور مشرقی سرحدی صورتحال سے ہمہ وقت نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ سلامتی سے متعلق صورتحال انتہائی نازک ہے جس کا احساس لیڈرشپ کے رُخ بدلتے بیانات سے بھی ہو رہا ہے۔ وزیراعظم روایتی انداز گفتگو سے ہٹ کر یہ بھی فرمانے لگے ہیں کہ ’’دہشت گردی پر قابو نہ پایا تو خدانخواستہ ملک نہیں رہے گا‘‘ اور آج ’’دہشت گردی نہ روکی تو شاید کل روکنا ممکن نہ ہو‘‘ ان حالات میں بھارت کی کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر مسلسل اشتعال انگیزیاں دہشت گردوں کو ’’سٹرٹیجک کور‘‘ فراہم کر رہی ہیں۔ ہمارے پاس تیزی سے آپشنز محدود ہوتے جا رہے ہیں اور تیزی سے تقاضا کر رہے ہیں کہ سیاسی اور عسکری قیادت (بشمول تمام سیاسی جماعتیں) ایک صفحہ پر آئیں۔ اپنے اختلافات اور ملکی حالات کا سنجیدگی سے جائزہ لیں اور سیاسی مفادات کو پس پشت ڈال کر صحیح معنوں میں قابلِ عمل حکمت عملی ترتیب دیں۔