علمائے اسلام میں سامراج دشمنی کی روایت

Jan 01, 2015

فتح محمد ملک ....دنیائے اسلام

یہ امر بڑا خوش آئند ہے کہ چند روز پیشتر دیوبندی مکتبہ فکر سے وابستہ اکیس جماعتوں نے خود کو ایک سپریم کونسل کی صورت میں متحداور منظم کر لیا ہے-یہ امر بھی بڑا حوصلہ افزا ہے کہ اِس دیوبندی سپریم کونسل کی قیادت بطلِ حریّت سیّد عطاءاللہ شاہ بخاری مرحوم کے صاحبزادے جناب عطاءالمھیمن کے سپرد کر دی گئی ہے اِس وقت پاکستان میں اٹھارہ ہزار پانچ سو دیوبندی مدارس درس و تدریس اور دعوت و تبلیغ میں سرگرم ہیں- اِن مدارس اور ہماری قومی زندگی میں اگر حریّت پسندی اور سامراج دشمنی کی وہی رُوح دوبارہ زندہ اور متحرک کر دی جائے جس سے سید عطاءاللہ شاہ بخاری عُمر بھر سرشار رہے تو وہ دِن دُور نہیں جب ہمارا حکمران طبقہ بھی اسلامی حمیّت اور قومی غیرت کو اپنا طرزِ فکر وعمل بنانے پر مجبور ہو جائیگا- یہ ایک تاریخی صداقت ہے کہ ہمارے ہاں روس کے اشتراکی انقلاب کا خیرمقدم مسٹر سے بہت پہلے مولانا نے کیا تھا- جمعیت العلمائے ہند کے اجلاس چہارم (منعقدہ 24 تا 26دسمبر1922ئ) میں خطبہءصدارت پیش کرتے وقت مولانا حبیب الرحمن دیوبندی نے فرمایا تھا کہ : ”کون یقین کر سکتا تھا کہ رُوس کی شخصی حکومت کے خون سے ایک ایسی حکومت کی آبیاری ہو گی جو تمام مظلوم اقوام کی حمایت اور عالمِ اسلام کی تقویت اور نئی تُرکی کی دوستی میں سب سے زیادہ م¶ثر اور طاقت ور آواز بلند کرے گی-“
یہاں میں یہ یاد دلانے کی ضرورت محسوس کرتا ہوں کہ مولانا حبیب الرحمن کا شمار سید عطاءاللہ شاہ بخاری کے عزیز ترین اور قریب ترین رفقاءمیں ہوتا ہے-خود سید عطاءاللہ شاہ بخاری اسلام میں معاشی انصاف کے اُنھی تصورات پر کاربند تھے جو علامہ اقبال کی تفسیر و تعبیرِ اسلام میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں- شورش کاشمیری مرحوم و مغفور نے اپنی کتاب بعنوان ”سید عطاءاللہ شاہ بخاری“(اشاعت اوّل 1952ئ) میں لکھتے ہیں :
”عام اشتمالی نوجوانوں کو وہ گمراہ مخلص خیال کرتے ہیں، لیکن دکان دار علما کی طرح وہ نہ تو سرمایہ داری کا جواز پیدا کرتے ہیں اور نہ زمینداروں کے حق میں ہیں- اُنکے نزدیک زمینیں خُدا کی ملکیت ہیں اور جو لوگ اُن پر ہل جوتتے ہیں ، وہی از رُوئے اسلام اُنکے حقدار ہیں- جس نظام معیشت سے بھی استحصال پیدا ہو وہ اسکے سخت خلاف ہیں- اُنھیں خونیں انقلاب برپا کرنے میں بھی عار نہیں لیکن ان کے نزدیک رہنما ”قرآن“ ہے، ”سرمایہ“ نہیں-“(صفحہ 24)
کہیے ، علامہ اقبال کی مشہور اُردو نظم ”الارض لِلّہ“یاد آئی یا نہیںآئی؟ اگر آپ کا جواب نفی میں ہے تو پھر کم از کم ایک دفعہ یہ اُردو نظم ضرور دیکھ لیں-میں نے جب پہلے پہل شورش کاشمیری مرحوم کی کتاب کی یہ سطریں پڑھی تھیں تو مجھے بے اختیار اقبال کی یہ نظم اور اپنے علاقے میں مجلسِ احرار کے شعلہ بیان اور سرگرمِ تبلیغ رہنما مولانا گل شیر خان یاد آتے ہیں جنھوں نے اپنی شعلہ بیانی سے جاگیرداری نظام کو سنگین خطرات میں مبتلا کر دیا تھا- نتیجہ یہ کہ یہ قتل بھی کر دیئے گئے تھے اور اِنکے قاتلوں کی طرف نوابوں کی دہشت سے کوئی اُنگلی بھی نہ اُٹھا سکا تھا- آج رہ رہ کر یہ خیال آتا ہے کہ کاش دیوبندی علماءکی سپریم کونسل کسانوں کو جاگیرداروں کے پنجہءاستبداد سے اور غریبوں کو سرمایہ داروں کے استحصال سے نجات دلانے کی خاطر اسلام کے اُسی انقلابی پیغام کو تازہ کرنے کا کارنامہ سرانجام دے سکے تاکہ پاکستان میں اسلام کا حقیقی اسلامی چہرہ اپنی تب و تاب دکھا سکے- مصورِ پاکستان علامہ اقبال نے معاشی ظلم و استبداد سے پاک ایسے ہی معاشرے کی تصویر پیش کی تھی- علامہ اقبال کی تفہیم و تفسیرِ اسلام ہی کے زیرِ اثر انقلابِ روس سے پیشتر ہی اسلام اور اشتراکیت کے درمیان اصولی اور بنیادی مماثلت کے رشتے تلاش کیے جانے لگے تھے- مشیر حسین قدوائی کا انگریزی کتابچہ بعنوان ”اسلام اور سوشلزم “ 1913ءمیں لندن سے شائع ہوا تھا جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ہرچند کارل مارکس کی سوشلزم محمد مصطفیﷺ کی سوشلزم کی نسبت ایک غیر مکمل آئیڈیالوجی ہے تاہم یہ ناقص سوشلزم بھی عہدِ حاضر کیلئے ایک نعمتِ غیر مترقبہ ہے- قدوائی جیسے جدید تعلیم یافتہ ادیب ہوں یا مولانا برکت اللہ بھوپالی (1854ء- 1927ئ) اور مولانا عبید اللہ سندھی (1872ء- 1944ئ) جیسے علمائے دین ہوں ، یہ سب اہلِ نظر سچے اور کھرے مسلمان پہلے تھے اور سوشلسٹ بعد میں-اِنکے دل اتحادِ اسلامی کے خواب سے منور تھے اور اِنکی آنکھیں مغربی سامراج کی تباہی میں دُنیائے اسلام کی نجات دیکھ رہی تھیں- اِن سربکف مجاہدینِ اسلام نے برطانوی سامراج کیخلاف اپنے جہادِ آزادی میں سب طرف سے مایوس ہو کر بالآخر اشتراکی روس کا رُخ کیا تھاجہاں لینن نے اسلامی مشرق میں آزادی کی تحریکوں کی تائید و حمایت کا علم بلند کر رکھا تھا - اِس دور میں اشتراکی رُوس کی مسلمان دوست حکمتِ عملی کی بیشتر تفصیلات مشیر حسین قدوائی کی تصنیف ”پان اسلامزم اینڈ بالشوِزم “ (مطبوعہ لندن، 1937ئ) میں موجود ہیں- خیری برادران نے 25نومبر 1918ءکو رُوس پہنچ کر اشتراکی قیادت سے جہادِ آزادیءہند میں دستِ تعاون بڑھانے کی اپیل کی تھی- اِدھر افغانستان میں امیر امان اللہ خان کے اقتدار میں آ جانے سے ہندوستان کے جلاوطن مجاہدین پھر سے سرگرمِ عمل ہو گئے تھے-لینن اور امان اللہ کے مابین دوستانہ مراسم استوار ہوئے تو مولانا برکت اللہ 1919ءمیں امیر امان اللہ خاں کے سفیرِ خاص کی حیثیت سے ماسکو پہنچے تھے جہاں اُنھوں نے سوویت یونین کے تعاون سے آزادیءہند کی جدوجہد مرتے دم تک جاری رکھی تھی- مولانا برکت اللہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے-حضرت جمال الدین افغانی نے اپنے قیامِ ہند کے دوران اُنھیں انقلابی جدوجہد کے راستے پر ڈالا تھا- اُنھوں نے کبھی اپنے کمونسٹ ہونے کا دعوی نہیں کیا مگر وہ سامراج کےخلاف جنگ میں کمیونسٹ حکمتِ عملی کو ہندوستان کیلئے موزوں خیال کرتے تھے چنانچہ اپنے کتابچہ بعنوان ”بالشوِزم اینڈدی اسلامک باڈی پالیٹکس“ میں اُنھوں نے مسلمانانِ عالم کو رُوسی سوشلزم کے اصول و نظریات کو سمجھنے اور کامریڈ لینن کی آزادی ،مساوات اور اخوت کی صدا پر لبیک کہنے کی ترغیب دی تھی- یہ اُنکی اور اُن کے احباب کی مساعی ہی کا نتیجہ تھا کہ تاشقند، ثمرقند، بخارا اور باکوسے ” زمیندار “اور ”آزاد ہندوستان اخبار“ جیسے جرائد برطانوی حکومت کیخلاف اشتعال اور بغاوت پھیلانے میں موثر کردار سرانجام دیتے رہے- بات یہ ہے کہ اِن بزرگوں کی اشتراکیت دوستی اِنکی سامراج دشمنی ہی کا ایک رُوپ تھی- یہ لوگ محمدﷺ سے وفا اور سامراج سے دوستی کو تو باہم متضاد گردانتے تھے مگر انھیں اسلام سے محبت اور لینن سے دوستی میں کوئی تضاد نظر نہیں آتا تھا- سید الاحرار مولانا حسرت موہانی کا سا راسخ العقیدہ مسلمان نہ صرف یہ کہ ہندوستان کمیونسٹ پارٹی کے قیام میں امداد و تعاون کو جائز سمجھتا تھا بلکہ اِس بات پر بھی نازاں تھا کہ :
درویشی و انقلاب مسلک ہے مرا
صوفی مومن ہوں، اشتراکی مسلم
یاد رہے کہ اشتراکی انقلاب کا والہانہ خیرمقدم کرنیوالا یہ شخص ارکانِ شریعت کی پابندی بھی کچھ ایسے جذباتی وفور کےساتھ کرتا ہے کہ ایک چھوڑ گیارہ حج کرنے کے بعد بھی سمجھتا ہے کہ فرض ادا نہیں ہوا- یہ شخص سید الاحرار بھی ہے اور رئیس المتغزلین بھی- قوم میں سیاسی بیداری کی تحریک اور ادب میں فکری بیداری کی تحریک نے ہر دو دھارے اِسکی ذات میں باہم دگر آمیز نظر آتے ہیں- یہ ہے سامراج دشمنی اور معاشی استبداد سے جبلی نفرت کا وہ ورثہ جو ایک زمانے میں دیوبندی علماءکی عزیز ترین متاع تھی- دیکھا چاہیے دیوبندی علماءکی نئی سپریم کونسل اِس انقلابی ورثے کی بازیافت کا حق کیونکر ادا کر پاتی ہے؟

مزیدخبریں