رحمت للعالمین

ہمارے نبی حضرت محمدؐ اﷲ کے حبیب دنیا میں کیا تشریف لائے کہ رحمت للعالمین کہلائے۔ جہاں اﷲ تعالی نے اپنا تعارف رب العالمین کروایاہے وہاں محمدؐ کو رحمت للعالمین کے لقب سے نوازا ۔ یعنی اﷲ تعالی جو تمام عالموں کا مالک و مختار ہے، پالنے والا ہے اس نے ان عالموں کیلئے رحمت کا اہتمام بھی اپنے آخری نبیؑ کی صور ت میں کر دیا۔ نبوت کا جو سلسلہ حضرت آدمؑ سے شروع ہوا وہ حضرت محمدؐ پر آ کر اختتام پذیر ہوا۔ آپؐ کے دل میں انسانیت کو راہ راست پر لانے کا اس قدر درد تھاکہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ کہیں آپ ان لوگوں کی خیر خواہی چاہنے میں اپنے آپ کو روگی نہ بنا لیں۔ کیا شان ہے محمدؐ کی کہ اﷲ تعالی انہیں سمجھا رہے ہیں کہ آپ کا کام صرف پہنچانا ہے، منواناآپ کا کام نہیں ہے کیونکہ نبیؐ تو بشیر اور نذیر ہوتے ہیں یعنی خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے ،باقی دلوں کو پھیرنا اﷲ کے احکامات پر عمل درآمد کرانا کسی انسان کے بس میں نہیں، یہ اﷲ تعالی کی توفیق سے ہونیوالے کام ہیں لیکن میرے نبیؐ کو تو معراج کے دوران جنت دوزخ کا مشاہدہ کرا دیا گیا تھا، اب یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ لوگوں کو دوزخ کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھتے اور دل ہی دل میں انکی ناسمجھی پر نہ کڑھتے۔ آپؐ نے فرمایا کہ یہ لوگ پروانوں کی طرح آگ کی طرف لپکتے ہیں اور میں انہیں پکڑ پکڑ کر پیچھے کھینچتا ہوں۔ یہ تھے میرے نبیؑ جو انسانیت کیلئے رحمت بن کر آئے تھے۔آپؐ کا اپنا بچپن یتیمی میں گزرا لیکن طبیعت اور تربیت ایسی تھی کہ صادق اور امین کہلائے۔ حضرت خدیجہؓ جیسی سمجھدار اور بلند کردار خاتون نے جب آپؐ کو اپنے کاروباری شراکت دار کے طور پر پرکھا تو شریک زندگی بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ حضرت خدیجہؓ ہی تھیں جنہوں نے نبوت ملنے کے بعد کے مرحلوں میں آپؐ کا بھرپور ساتھ دیا۔ یہ مرحلے بہت مشکل تھے۔ مشرک اورجاہل معاشرہ جہاں آپؐ کی بخوبی جانتے تھے کہ محمدؐ جو بات کر رہے ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ انہی باتوں کا تسلسل ہے جو پہلی الہامی کتابوںمیں موجود ہیں۔ حضرت محمدؐ کوئی نئی بات نہیں کر رہے بلکہ وہی تعلیمات دے رہے ہیں جو ان سے پہلے انبیاء کرام نے دیں لیکن انہوںنے اپنے تعصبات کی وجہ سے حضرت محمدؐ کی تائید نہیں کی، انکے ساتھ نہیں کھڑے ہوئے بلکہ انکی مخالفت پر کمر باندھ لی۔ اب میرے نبیؐ کا کام اور بھی مشکل ہو گیا۔ انہیں شعب ابی طالب میں محصور کر دیا گیا جہاں انہوں نے کون کون سی صعوبتوں کا سامنا نہیں کیا۔ اپنے چند جان نثار ساتھیوں کے ساتھ میرا نبیؐ وہ کچھ صبر وتحمل سے سہہ گیا جو کسی عام انسان کیلئے ممکن نہ تھا۔ لیکن کبھی کسی نے میرے نبیؐ کے منہ سے کوئی شکوہ شکایت سُنا اور نہ ہی اپنوں کیلئے کوئی گلہ۔ ہاں یہ وہی اپنے تھے جو میرے نبیؐ کے اخلاق وکردارکے معتقد تھے لیکن اﷲ کی طرف بُلانے کی دعوت سے اس قدر بر اندوختہ ہوئے کہ آپ کیلئے اور آپؐ کے ساتھیوں کیلئے اپنے ہاتھوں میں سنگ اٹھا لیے لیکن آپؐ صبر و استقامت کا پیکر بنے رہے۔ آپؐ کو ان لوگوں کی بھلائی جو مقصود تھی، آپؐ توان نادانوں کے خیر خواہ تھے۔ آپؐ نے تواﷲ کاکلام ان تک پہنچانا تھا ان کے اندر اتارنا تھا، ان کا تزکیہ نفس کرنا تھا، یہ کام بہت صبر آزما تھا۔ میں قربان جائوں محمدؐ کے جنہوں نے یہ کام بہترین انداز میں سرانجام دیا۔ اس میں انہیں کیا کیا صعوبتیں نہیں اٹھانا پڑیں، دیس نکالا ملا، وطن کو چھوڑنا پڑا، مدینہ کی طرف ہجرت اختیار کی۔ اس سے پہلے شعب ابی طالب کی مشکلات سہتے سہتے حضرت خدیجہؓ رحلت فرما چکی تھیں۔ ہجرت کے تکلیف دہ مراحل میں حضرت ابوبکرؐ جیسے جانثار ساتھی کی ہمراہی تو میسر تھی لیکن ڈھارس دینے والی غم گسار شریک حیات کی جدائی نے ہجرت کے مراحل کو کتنا مشکل کر دیا ہو گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اﷲ کی مدد و تائید نبیؐ کو ہر مرحلے پر حاصل تھی لیکن انسانی سطح پر نبیوں پر بھی آزمائشیں آئیں، انہیں آزمایا گیا۔ نبیؐ کے جدِ امجد حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ بھی آزمائے گئے تھے اور وہ اس آزمائش پر پورا اترے تھے۔ جب حضرت ابراہیمؑ، حضرت اسماعیلؑ کے گلے پر چُھری چلا رہے ہوںگے تو وہ تو نہیں جانتے تھے کہ بیٹے کی جگہ ایک دُنبہ رکھ دیا جائیگا اورآنکھوں سے پٹی اتارنے پر بیٹا سامنے کھڑا مسکرا رہا ہو گا۔اپنے اصحاب کی وہ تربیت کی کہ وہ آسمان اسلام کے درخشاں ستارے کہلائے اور انکی روشنی نے پورے جہاں کو روشن کیا- یہ وہ جرنیل تھے جو میدان جنگ میں اﷲ کی تلوار تھے اور عام زندگی میں بہترین اخلاق و کردار والے پیرو کار تھے۔ یہ میرے نبیؐ کے تربیت یافتہ تھے۔ انہوںنے اپنی زندگیوں میں کیا کیا فتوحات حاصل نہیں کیں۔ چاہے وہ سلطنتیںفتح کرنا ہویاپھر لوگوںکے دل ، یہ میرے بہترین نبیؐ کے اسوہ حسنہ تھے جواس وقت کے جاہل لوگوں کے سامنے بہترین مثال کی صورت موجود تھے ،جو مشعل کی طرح انہیں زندگی کے سفر میں رہنمائی کرتے ہوئے بہترین زندگی سے بہترین آخرت کی طرف لے گئے۔ آج ہمیں بھی ضرورت ہے کہ ہم نبیؐ کی سُنتیں اپنائیں۔ آپؐ کیساتھ عقیدت کا تقاضا ہے کہ اپنے اندر آپؐ جیسے اخلاق وخصائل پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ آپؐ کی زندگی کے تمام پہلوئوں کو جانیں، سمجھیں اوران میں آپؐ نے جو رویہ اختیار کیا، اسے اپنائیں۔

شازیہ ارم....بنیادی باتیں

شازیہ ارم....بنیادی باتیں

ای پیپر دی نیشن