ایوان بالا میں اپوزیشن کا عددی اکثریت کا بے رحمانہ استعمال قرارداد پر گرماگرم بحث

ایوان بالا میں حکومت کو2015ء کی پہلی بڑی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ،حکومتی ارکان دیکھتے ہی رہ گئے اپوزیشن نے اپنی اکثریت کا بے رحمانہ استعمال کر کے سینیٹ سے (پی آئی اے) منتقلی آرڈیننس 2015ء آرڈیننس نمبر17 بابت 2015 کو مسترد کرنے کی قرارداد منظور کرا لی، حکومتی ارکان کی تعداد ویسے بھی کم تھی ویسے بھی حکومت قرار داد کو ایوان میں لانے سے نہ روک سکی، راجہ محمد ظفر الحق اپوزیشن کے طرز عمل پر حیران و ششدرتھے ،ان کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ مفاہمت کے ماحول میں قانون سازی کی جائے دو تین بار حکومت نے قانون سازی میں اپوزیشن کی طرف سے کی گئی ترامیم کو قبول کر لیا اور کوئی تنازعہ کھڑا نہیں کیا لیکن جس عجلت سے پی آئی اے کے بارے میں صدارتی آرڈیننس کے خلاف قرار داد منظور کی گئی، حکومتی حلقوں کا موقف ہے کہ اپوزیشن نے قومی مفادات پر پارٹی سیاست کو ترجیح دی بہرحال اب حکومت قومی اسمبلی سے پی آئی اے کے بارے میں صدارتی آرڈنس کو بل کی صورت میں منظور کرا کر ایوان بالا میں لائے گی اور اگر ایوان بالا اس بل کو مسترد کردے تو حکومت اس بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے منظور کرالے گی ،پارلیمانی تاریخ میں اس نوعیت کی بہت کم قانون سازی ہوتی ہے پہلے ہی پارلیمنٹ میں قانون سازی کی رفتار سست ہے لیکن سینیٹ میں محاذ آرائی کی کیفیت پیدا ہونے سے قانون سازی کا عمل مزید متاثر ہوگا۔ پی آئی اے صدارتی آرڈیننس کے خلاف قرارداد پر گرما گرم بحث ہوئی حکومتی اور اپوزیشن ارکان نے ایک دوسرے پرالزامات عائد کئے، چیئرمین سینیٹ نے حکومتی بنچوں کی جانب سے لگنے والے الزامات کے جواب میں کہا کہ’’ اس قرارداد کو لانے میں تمام آئینی تقاضے پورے کئے گئے ہیں، قرارداد بھی آئینی ہے،3دن نوٹس دیا گیا تھا، قائدایوان راجہ محمد ظفر الحق اپوزیشن کے ارکان کو سمجھاتے رہے کہ جس آرڈیننس کو مسترد کیا جارہاہے کم از کم اسے پڑھ تو لیں،وفاقی وزیر خزانہ اسحقٰ ڈار نے کہا کہ ’’ یہ قرارداد لانے والوں نے زیادتی کی ہے اس آرڈیننس سے پی آئی اے کو بیوروکریسی سے آزادی ملے گی ۔عوامی مفاد پر سیاست ختم نہ ہوئی تو ہمارا خداحافظ ہے، سینیٹ کے اجلاس میں پی آئی اے آرڈیننس پر سینیٹر مشاہد اللہ خان، سینیٹر سعید غنی ، سینیٹر لیفٹینٹ جنرل (ر) عبدالقیوم، سینیٹر فرحت اللہ بابر اور دیگر نے اظہار خیال کیا،سینیٹر مشاہد اللہ خان جو خود پی آئی اے کی یونین ایئر لیگ کے لیڈر رہے ہیں نے کہا کہ ’’تعجب ہے کہ ایوان نے خصوصی کمیٹی بنائی کمیٹی کے بعد اس قرارداد کی ضرورت نہیں تھی، یہ قرارداد منظور کر کے کچھ وقت کے لئے واہ واہ ہو جائے گی لیکن اس کے بعد برے اثرات مرتب ہوں گے، وفاقی وزیر خرانہ اسحقٰ ڈار نے کہا کہ ،1956کے ایکٹ کے تحت اس کارپوریشن کو کمپنی بنایا گیا ہے ،82فیصد صحیح وقت پر پروازیں جارہی ہیںاس قرارداد کے ذریعے اپوزیشن نے پی آئی اے کی ترقی کو روند ڈالا، سینیٹر سعید غنی نے کہا کہ مجھے علم ہے کہ اس قرارداد کی وجہ سے تکلیف ہے ، اس قرارداد پر 51اراکین کے دستخط موجود ہیں اور تمام سیاسی پارٹیوں کے اراکین شامل ہیں ، ہم نے کبھی کسی سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ مانگا ہے اور نہ ہی مانگیں گے، قرارداد کی منظوری سے قبل چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے قرارداد کو مو خر کرنے کی وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب کی زبانی اور سیکرٹری ایوی ایشن کی تحریری استدعا کو مسترد کر دیایوان بالاکا 2015 ء میں شروع ہونے والا اجلاس جنوری 2016ء میں بھی جاری رہے گا۔ چئیرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے 31 دسمبر 2015 ء کی شام سینٹ کا جاری 122 واں اجلاس آج یکم جنوری 2016 ء بروز جمعہ سہ پہر تین بجے تک ملتوی کردیا۔ آج صورت واضح ہو جائے گی ،سینیٹ کا اجلا س کتنے روز جاری رہتا ہے یا غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیا جاتا ہے سینیٹ اجلاس میں ایم کیوایم کے سینیٹرکرنل (ر) طاہر حسین مشہدی کی آرمی پبلک اسکول پر دہشتگرد حملے کی جوڈیشل انکوائری کے بارے تحریک التواء 2گھنٹے کی بحث کے لئے منظور کر لیا گیا ہے، سینیٹر عثمان سیف اللہ کا توجہ دلائو نوٹس موخر کر دیا گیا، سینیٹر اسرار اللہ نے مجلس قائمہ کی رپورٹ میں پیش کرنے کی مدت میں توسیع کی تحریک منظور کر لی گئی۔
پارلیمنٹ کی ڈائری

ای پیپر دی نیشن