قومی کھیل کے ساتھ مذاق کیوں

2015ء کا سال قومی کھیل ہاکی کیلئے اچھا نہیں رہا ہے۔ جس کی جتنی ذمہ داری فیڈریشن کے عہدیداران پر عائد ہوتی ہے اتنی ہی ذمہ دار حکومت بھی ہے۔ حکومت اس لئے ذمہ دار ہے کہ اس نے دو سال تک قومی کھیل کے ساتھ ایک سوتیلی ماں کا سلوک اپنائے رکھا۔ شاید اس کی یہ وجہ درست بھی ہو کیونکہ سابقہ ہاکی فیڈریشن کی انتظامیہ جس میں سابق صدر اختر رسول اور سابق سیکرٹری رانا مجاہد نے حکومت کی آنکھ میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتے ہوئے 2013ء میں نام نہاد الیکشن کا ڈرامہ رچایا۔ حکومت نے انہیں منع بھی کیا تھا لیکن نادان دوستوں کے مشورے سے اختر رسول نے خود کو صدر اور اپنے ساتھی رانا مجاہد کو سیکرٹری جنرل منتخب کرا لیا۔ حکومت کو ان کی یہ بات پسند نہ آئی لہٰذا اس وقت کی فیڈریشن کا حقہ پانی بند کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ ایشین گیمز اور چیمپئینز ٹرافی ہاکی ٹورنامنٹس میں روایتی حریف بھارت کو شکست دینے والی پاکستانی ٹیم کے اعزاز میں ایک تقریب تک منعقد نہ کی گئی۔ کہتے ہیں کہ عقل مند کیلئے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ لیکن اقتدار ایسی چیز ہے جو عقل پر پردے ڈال دیتا ہے۔ بہرکیف ماضی کی انتظامیہ نے اپنا بویا ہوا کاٹ لیا۔ اب نئی انتظامیہ کے سامنے کڑے امتحان باقی ہیں۔ شاید ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نئی انتظامیہ پانی میں اترنے سے قبل ہی اس کی گہرائی سے پریشان ہو گئی ہے اور ایسے فیصلے کرنا شروع ہو گئی ہے کہ اگر اس نے سابق عمر رسیدہ اولمپینز کو اپنے ساتھ نہ رکھا تو شاید وہ ناکام ہوجائیں گے، پاکستان ہاکی فیڈریشن کی انتظامیہ کو کس بات کا ڈر ہے کہ وہ اپنے ہی فیصلوں پر قائم رہنے کی بجائے اس میں بار بار تبدیلی کرنا شروع کر دیتی ہے۔ پاکستان میں ہاکی اولمپینز کی بڑی تعداد موجود ہے۔ 2016ء کے اولمپکس مقابلوں میں کوئی نیا اولمپئین نہیں بن سکے گا جس کی وجہ یہ ہے ان مقابلوں میں ہاکی ٹیم شرکت سے محروم ہے۔ پاکستان میں انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کے چند کوالیفائیڈ کوچ موجود ہیں جن میں سے ایک طاہر زمان کو نئی انتظامیہ کی جانب سے جونیئر ٹیم کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ طاہر زمان فیڈریشن کے پہلے امتحان میں پاس ہو گئے انہوں نے ایک ہی ٹورنامنٹ میں جونیئر ٹیم کو 2016ء کے جونیئر ورلڈ کپ تک رسائی دلا دی۔ فیڈریشن کا اصل امتحان سینئر ٹیم کی کارکردگی پر ہوتا ہے۔ جس کے لیے پاکستان ہاکی فیڈریشن ایک اچھا فیصلہ کرنے جا رہی تھی جس میں ایف آئی ایچ کوالیفائیڈ کوچ المپئین قمر ابراہیم کو ذمہ داری سونپی جا رہی تھی جس کا فیڈریشن 2015ء کے آخری کانگرس اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے میں بھی اعلان کر چکی تھی لیکن 24 گھنٹوں میں ایسا کیا ہوا کہ سینئر ٹیم کے منیجر کو ہیڈ کوچ کا اضافی چارج دیدیا گیا اور ایک کوالیفائیڈ کوچ کو معاون کوچ کے عہدہ پر تنزلی کر دی گئی۔ بغیر امتحان کے فیڈریشن کا نتیجہ نکالنا سمجھ سے بالا ہے۔ حنیف خان پاکستان ہاکی کا ایک بڑا نام ہیں انہیں ماضی کے تجربات سے سبق سیکھنا چاہیے تھا جس میںاختر رسول، شہناز شیخ، منظور الحسن جیسے سینئرز کھلاڑیوں کو کوچنگ کے فرائض دیئے جانے پر انہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اب ہاکی جدید ہو گئی ہے لہٰذا کوالیفائیڈ کوچز کو آگے آ کر کام کرنے کا موقع دیں اور خود باہر بیٹھ کر ان کی رہنمائی کریں۔ اگر اسی طرح اقتدار کے لالچ میں غیر سنجیدہ فیصلے کئے جاتے رہے تو معذرت کے ساتھ یہ کہنا پڑے گا کہ فیڈریشن نے اپنی شکست پر خود ہی مہر لگا دی ہے، قمر ابراہیم کا استعفی اس کی ایک مثال سب کے سامنے ہے۔ اگر فیڈریشن نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو شاید پھر پاکستان ہاکی کی ترقی کا ستارہ نہ چمک سکے۔ حنیف خان کو چاہیے کہ وہ قمر ابراہیم کے حق میں خود دستبردار ہو جائیں۔ قمر ابراہیم نے پھر بھی ان کی عزت رکھی ہے جس میں نجی مصروفیت کو بہانہ بنا کر عارضی کنارہ کشی اختیار کی ہے۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن کی انتظامیہ کو تجربات کی نہیں بلکہ مضبوط حکمت عملی کی ضرورت ہے۔

ای پیپر دی نیشن