غبن کے ایک کیس میں مجرم نما ملزم سے BAN نامی ادارے میں تفتیش ہو رہی تھی جس کے دوران مالی کرپشن کا حساب لگاتے ہوئے 50 سے 51 روپے یعنی ایک روپے کا فرق آنے کا مسئلہ پیدا ہوا۔اسکے نتیجہ میں ملزم کو ایک روپے جرمانے کی با عزت سزا دے کر رہا کر دیا گیا۔ اگر بات آپ کی سمجھ میں نہیں آئی تو تھوڑا صبر کریں۔ ملکی سطح پر ہونے والی کرپشن میں بھی تو ابھی تک آپ کو کیا سمجھ آیا ہے؟چلیں چھوڑیں واپس آج کے قصہ کی طرف چلتے ہیں کہ 50 سے 51 کیسے ثابت کئے جاتے ہیں ۔قصہ کچھ یوں ہے کہ جس ملزم کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ اپنی صفائی کیلئے ایک واقعہ بیان کرتا ہے۔ دو دوست مل کر پچیس پچیس روپے جمع کرتے ہیں اور ایک دکان پر کسی چیز کی خریداری کیلئے جاتے ہیں ۔ دکاندار کو 50 روپے دے کر اپنی مطلوبہ چیز خریدنے کے بعد واپس آجاتے ہیں اسی دوران دکان کا مالک واپس آتا ہے اور اپنے ملازم سے پوچھتا ہے کہ کیا بیچا؟ تو وہ 50 روپے کی فروخت کا ذکر کر تا ہے جس پر دکان کا مالک کہتا ہے، فروخت کردہ چیز پینتالیس روپے کی تھی لہذا جائو اور پانچ روپے واپس کر کے آئو ۔ ملازم دوڑتا ہوا دونوں گاہکوں کے پاس پہنچتا ہے اور انہیں پانچ روپے واپس کرنے کی بجائے دو روپے واپس کر دیتا ہے وہ بھی اس ڈر سے کہ اس کا مالک پیچھے دیکھ رہا ہوتا ہے ۔ دو روپے واپس کرنے کے بعد بقیہ تین روپے اپنی جیب میں ڈال لیتا ہے ۔
ملزم یہ واقعہ سناتے ہوئے BANیعنی تفتیش کرنے والے ادارے کے اہلکاروں کو کہتا ہے کہ جناب دو دوستوں نے پچیس پچیس روپے ڈالے تفتیشی کہتے ہیں ٹھیک، ایک ایک روپیہ واپس ملنے کے بعد دونوں دوستوں کو چیز کی لاگت پچیس کی بجائے چوبیس روپے فی کس پڑ گئی، ادارے کے اہلکار کہتے ہیں بالکل ٹھیک۔ اگلے مرحلے میں وہ بیان کرتا ہے کہ دکان کا ملازم خود تین روپے رکھ گیا اہلکار کہتے ہیں کہ ٹھیک،تو جناب دونوں دوستوں کے 24, 24روپے جمع کریں تو 48 روپے ہوگئے جبکہ ملازم نے اپنی جیب میں تین روپے ڈالے اور یوں 48اور تین 51 ہو گئے۔ دونوں تفتیشی اہلکار حیران پریشان رہ گئے۔ قارئین اب آپ بھی سوچئے کہ 50 سے 51 کیسے ہوگئے؟کچھ اسی طرح کا سلسلہ ہمارے تفتیشی ادارے نیب کا ہے کہ وہ 50 کو 51 ثابت کر کے ایک روپیہ خود ریکوری کی مد میںاپنی احسن کارکردگی کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔
آپ نے اونٹ کے منہ میں زیرہ ،آٹے میں نمک کے برابر، مثالیں تو سنی ہوں گی مگر مندرجہ بالا جیسا واقعہ شاید ہی سننے میں آیا ہوگا ۔ میرے مشکل وقت کے دوست اور منجھے ہوئے صحافی آصف علی بھٹی نے اپنے کالم میں ایک واقعہ کا ذکر کیا کہ ایک دکان پر لکھا تھا گوشت اور مرغی کا گوشت ففٹی ففٹی مکس کر کے کباب بکتے ہیں۔ ایک شخص نے کباب کھانے کے بعد بل دیا تو اس کا بھائو تقریباً گائے کے گوشت کے برابر تھا اس نے حیران ہوکر ویٹر سے پوچھا کہ جب گائے اور مرغی کا گوشت ففٹی ففٹی یعنی آدھا آدھا ہے تو بھائو بھی زیادہ ہونا چاہیے کیونکہ دیسی مرغی کا گوشت گائے کے گوشت سے مہنگا ہوتا ہے تو ویٹر نے جواب دیا کہ جناب ہمارے ہاں 50 فیصد سے مراد کچھ اور ہے ۔ گاہک بولا وہ کیا ؟ تو ویٹر نے جواب دیا کہ ہم ایک پوری گائے اور ایک دیسی مرغی ذبح کر کے گوشت کو مکس کر دیتے ہیں اور یوں ہم اسے ففٹی ففٹی یعنی آدھا آدھا کہتے ہیں۔اب ہم 50 سے 51 اور ففٹی ففٹی کے دو واقعات کی مدد سے اپنے ملک کے اعلیٰ ترین ادارے کی ملک کی بدترین لعنت کے خلاف جاری تحقیقات کو جانچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ NABسیاسی مصلحتوں کا شکار ہے‘ یا اسے مکمل اختیارات دیئے جائیں ورنہ NAB کی حیثیت BAN تصور ہورہی ہے۔
قارئین آپ کو دیسی مرغی اور گائے کی مثال کی سمجھ تو شاید آگئی ہوگی مگر 50 سے 51 روپے کیسے ہوئے ابھی تک سمجھ نہیں آرہی ہوگی ۔ اب مزید غور کے ساتھ دھیان دیجئے ۔ دونوں دوستوں نے پچیس پچیس روپے ڈالے اور 50 ہو گئے ۔ جب انہیں ایک ایک روپیہ واپس مل گیا تو 48رہ گئے باقی جو تین روپے ملازم نے اپنی جیب میں ڈالے تو اس کو 48میں سے منفی کر دیں تو باقی 45بچیں گے ، یوں 45اور پانچ 50 روپے پورے ہوگئے لیکن ملزم نے دورانِ تفتیش تین روپے منفی کرنے کی بجائے جمع کر دیے اور 50 کو51کر دیا اور باعزت سزا کے طور پر ایک روپیہ جو اس نے 50 سے 51 ثابت کر کے پیش کیاخیالی جرمانے کے طور پہ پیش کر کے بری ہوگیا۔ قارئین اگر اب بھی آپ کو اس واقعہ میں پیش کی جانے والی حساب کتاب یعنی گنتی کی سمجھ نہیں آرہی تو خود سوچیں اربوں کھربوں کی کرپشن کے حساب کتاب کی سمجھ نیب کو کیسے آئے گی اور جب تک یہ حساب سیدھا نہیں ہوگا لوگ ایک سے دو ارب روپے کی باعزت سزا پا کر بری ہوتے رہیں گے اورNAB کی حیثیت BAN جیسی ہوگی۔حرف BANکو الٹا کریں تو NAB بن جاتا ہے جس کی کارکردگی اسم با مسمیٰ ہے،یا تو NABکو سیدھا کرنا پڑے گا یا اسے سیدھا دیکھنے کیلئے خود الٹا ہونا ہوگا۔
نیب کے پچاس سے اکیاون !
Jan 01, 2017