حکومت پسماندہ علاقوں کی تعمیر و ترقی اور غریب عوام کی فلاح وبہبود کیلئے تمام تر ممکنہ وسائل بروئے کا ر لارہی ہے ۔ غربت اور پسماندگی کے خاتمے کیلئے متعدد منصوبے مکمل ہو چکے ہیں جبکہ کئی پر کام زور و شور سے جاری ہے ۔ محدود وسائل میں صرف حکومت عوام کے تمام مسائل حل نہیں کر سکتی ہے اس کیلئے غیر سرکاری تنظیمیں ، مخیر حضرات ، غیر ملکی امدادی ادارے اور دوست و پڑوسی ممالک بھی اپنا حصہ ڈالتے ہیں ۔ جس کی مثال مذکورہ بالا علاقوں میں خلیجی ممالک کی ہے بعض عرب ممالک کے شہزادے سندھ کے سرحدی علاقوںاور پنجاب کے ڈیرہ غازی خان ، رحیم یار خان اور راجن پور میں تلور کا شکار کرتے ہیں۔جس کیلئے وفاقی حکومت محدود مدت کیلئے باقاعدہ لائسنس جاری کرتی ہے کیونکہ تلور برفانی علاقوں میں شدید سردی پڑنے کے بعد یہاں کا رُخ کرتے ہیں اگرچہ کچھ عرصہ قبل تلور کے شکار پر عدالت نے پابندی لگائی تھی تاہم عدالت عظمٰی نے بعد میں تلور کے شکار پر پابندی اٹھانے کے احکامات جاری کئے تھے اس کے باوجود بعض مفاد پرست عناصر نے تلور کے شکار اور حکومت کے خلاف منفی پروپیگنڈہ مہم شروع کر رکھی ہے اور وفاقی حکومت کی طرف سے عرب حکمرانوں اور ان کے خاندانوں کے افراد کو تلور کے شکار کیلئے دعوت اور اجازت دینے کی حوصلہ شکنی کرنے میں مصروف ہیں پاکستان کے حکمران عرب شہزادوں کو شکار کی دعوت صرف خیر سگالی کے جذبے کے تحت دیتے ہیں لیکن بعض عناصر نان ایشوز کو ایشو بنا کر بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا کر اس طرح کے غیر سنجیدہ باتوں میں لگاتے ہیں اور پاکستانی حکمرانوں اور عرب شہزادوں کے خوشگوار اور دوستانہ تعلقات میںرخنہ ڈالنے کی ناکام کوششیں کرتے ہیں لیکن بے جا تنقید کرنے والے عناصر کے علم میں شاید یہ بات نہیں آرہی ہے کہ یہ عرب حکمران تلور کے شکار والے علاقوں کے غریب عوام کا معیار زندگی بلند کرنے کیلئے کئی فلاحی کام بھی کرتے ہیں اور مقامی لوگوں کو صحت ، تعلیم ، انفراسٹرکچر ، بے گھر لوگوں کیلئے گھروں کی تعمیر ، پینے کے صاف پانی کی فراہمی کیلئے کا م کرتے ہیں تاکہ مقامی لوگوں کو بنیادی ضروریات زندگی فراہم کی جا سکیں ۔
وفاقی وزیر کامرس خرم دستگیر نے اسمبلی فلور پر بھی واضح الفاظ میں کہا ہے کہ عرب شہزادوں کو شکار کی اجازت دینے کی پالیسی پرہر سال نظر ثانی کی جاتی ہے شکار کی اجازت متعلقہ ممالک کے سفارتخانے کی درخواست پر دی جاتی ہے جس کی باقاعدہ وزیر اعظم منظوری دیتے ہیں۔ جبکہ عرب شہزادے مقامی آبادی اور علاقے تعمیر و ترقی کے کاموں میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں یہ عرب شہزادے بازوںکے ذریعے تلور کا شکار کرتے ہیں ۔
اور مخصوص علاقوں میں صرف محدود مدت کے لئے کیمپ لگاتے ہیں۔حکومت کے اس قدم سے عرب ممالک میں ایک خوشگوار تاثر جاتاہے۔کیونکہ عرب ممالک مےں ہزاروں پاکستانی مختلف شعبوں میں کام کرتے ہیںاور کثیر زرمبادلہ کماکر اپنے ملک بھےجتے ہیں اور پانے ملک کو بھجتے ہیں۔ چونکہ سردیوں میں سا ئبیریا اور دوسرے برفانی ممالک سے تلور دیگر ممالک کے علاوہ پاکستان کے صوبہ سندھ اور پنجاب کے سرحدی علاقوں کا رخ کرتے ہیں ۔تلور نومبر میں برفانی علاقوں سے گرم علاقوں کی طرف ہجرت کرنا شروع کرتے ہیں۔فروری میں انکا سیزن عروج پر ہوتاہے جبکہ مارچ میں ان کی واپسی شروع ہو جاتی ہے۔قارئین یہاں اس امر کا ذکر کرناضروری ہے کہ عرب شہزادوں کے ان علاقوں میں شکاری کیمپ لگنے سے تلور کے غیر قانونی شکار اور اس کی تجارت و سمگلنگ کا سلسلہ بھی رک جاتا ہے ہوبارہ فاﺅنڈیشن انٹرنیشنل پاکستان نے 2008-9کے دوران صوبہ سندھ کے سرحدی علاقوں اور پنجاب کے میدانی علاقوں ڈیرہ غازی خان ،رحیم یار خان اور راجن پور میں ایک سروے کا اہتمام کیاتھا تاکہ ان نایاب پرندوں کے غیر قانونی شکار، تجارت اور سمگلنگ کرنے والوں کی نشاندہی کی جا سکے۔سروے رپورٹ کے مطابق غیر قانونی شکار سے تلور کی نسل تباہ ہو رہی ہے اور تشویشناک بات یہ ہے کہ یہ لوگ تلور کو صرف مقامی طور پر فروخت اور سمگلنگ وغیرہ کےلئے استعمال کرتے ہیں۔جس کی روک تھام اشد ضروری ہے۔مذکورہ بالا علاقوں میں حفاظتی کیمپ قائم کیے گئے ہیں جن میں تلور کے غیر قانونی شکار اور تجارت میں ملوث افراد کی سخت مانیٹرنگ کی جا رہی ہے اور ان کے ساتھ آہنی ہاتھوںسے نمٹاجائے گا۔کیونکہ جنگلی حیات کا تحفظ حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ مفاد پرست عناصر پاکستان اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات کو سبوتاژ کر نے کی سازش سے باز آجائیں۔اور اس طرح کے حساس معاملات میں بغیر کسی معلومات کے بحث و مباحثہ سے گریز کیا جائے۔کیوں پاکستان اور عرب ممالک اسلامی رشتے میں منسلک ہیں اور ان تعلقات کو مزید مستحکم کر نے کی ضرورت ہے۔