The last crimes

جب ہم اپنے ارد گرد نظر ڈالتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ تمام بڑے جرائم کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ چنانچہ اب باقی ماندہ چھوٹے موٹے یا یوں کہئے کہ بچے کچھے جرائم کا قلع قمع کیا جا رہا ہے۔ بالکل اس ہی طرح جیسے گھروں میں خواتین صفائی کرتے وقت پہلے تمام بڑا گند سمیٹتی ہیں پھر چھوٹا کچر ا نکالتی ہیں اور پھر جا کر کہیں کونے کھدروں کی صفائی کی باری آتی ہے۔ہمیں یہ خیال یوں آیا کہ پنجاب کے ایک ر ٹیائرڈ پولس افسر نے اپنی کتاب”The Ultimate crime“ میں جن ہوشربا جرائم کی نشاندہی کی ہے ان کے خلاف کسی بھی قسم کا اقدام ہوتا نظر نہیں آیا ۔ اب ہم چونکہ نہایت ہی ’Optimist‘ واقع ہوئے ہیں اس لیئے یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ ہماری پولیس اور حکومت نے ایسے تمام جرائم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے اور اب وہ صرف باقی بچی کھچی گند گی کو دور کر کے پاکستان کو ایک مثالی ملک بنانے میںمشغول ہیں۔ ہمارے یہ سمجھنے کی تائید ان مناظر سے ہوتی ہے جو ہم روزانہ صبح شام دیکھتے ہیںاور یقیناً آپ بھی دیکھتے ہونگے۔اگر نہیں تو اب غور کیجئے گا۔ ہر سگنل والے چوراہے کو کراس کرنے کے بعد تقریباً پندرہ بیس گزکے فاصلے پر آپ کو دو تین ٹریفک کانسٹیبل اور ایک آدھ انسپکٹر ، ہلمٹ لگائے موٹر سائکل پر الرٹ بیٹھا نظرآئے گا۔ سب کی توجہ کا مرکز چوراہا ہوگا اور جیسی ہی کوئی موٹر سائیکل والا ، سگنل کے زرد سے سرخ ےاسبز سے زرد ہوتے وقت آگے پیچھے ہو گیا تو ان سپاہیوں میں برقی رو دوڑتی نظر آئے گی اور یہ کمالِ تیزی سے آگے آکر جرم کے اس مرتکب کو پکڑ لیں گے اگر کسی نے شہ زوری دکھائی تو موٹر سائیکل حرکت میں آ جائیگی اور مجرم پکڑا جائیگا۔ اس قسم کے چھوٹے موٹے جرائم پر بھر پور توجہ دینے کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ شائد اب تمام بڑے بڑے جرائم ختم ہو چکے ہیں ۔ مثلاً تمام بسوں اور ٹیکسیوں کے ڈرائیوروں کے سارے کاغذات مکمل ہو چکے ہیں ۔ سب یونیفارم پہنتے ہیں اور بیج بھی لگاتے ہیں، ہارن کی آواز اور دھواں ناپیدہوچکا۔تیزر فتاری اور اوور ٹیکینگ معدوم۔ بسوں کی چھتیں سواریوں کے بغیر، اوراند ر مسافر سیٹ بائی سیٹ بیٹھ رہے ہیں۔ پیدل حضرات زیبرا کراسنگ کے علاوہ کہیں اور سے روڈ پار کرنے کا سوچتے بھی نہیں۔ اس کے علاوہ پولیس جس طرح ہمارے عوام کو تکالیف سے بچانا چاہتی ہے وہ ہم پہ گزرے ہوئے اس واقعہ سے واضح ہوجائے گا۔ہوا یہ کہ ہم شام کے وقت گھر جارہے تھے ، آئی آئی چندریگر روڈ پر شاہین کمپلکس کے سگنل کو کراس کر ہی رہے تھے کہ زرد بتی جل گئی۔ ہم چونکہ اسٹاپ لائین کراس کر چکے تھے اس لیئے رکنے کی کوئی ضرورت نہ تھی لیکن اتفاقاً ایک پیدل شخص ہمارے سامنے آگیا اور ہمیں بیچ چوراہے پر رکنا پڑا اس ہی اثنا میں سگنل سرخ ہوگیا اور سپاہی بڑی سرعت سے آگے بڑھا اور ہمیں رکنے کا اشارہ کیا۔ ہم ابھی کارسائیڈ میں کر ہی رہے تھے کہ اس نے لپک کر موٹر سائیکل اسٹارٹ کی اور ہماری کار کے آگے لاکر موٹرسائیکل کھڑی کر دی، ہمارے پاس آیا، سلام کر کے ہاتھ ملایا اور فرمایا ’سر آپ کا لائسنس ؟‘ ہم نے بحث کرنا فضول جانتے ہوئے لائسنس دے دیا۔ اس نے چالان بک نکالی اور کہا دو سو کا چالان کٹے گا۔ ہم نے کہا ٹھیک ہے۔اس نے پنسل بک پر رکھی پھر ہم سے مخاطب ہوا ’ سر کیا ضروری ہے کہ جرمانہ بنک میں جمع کرائیں ‘ ۔ ہم نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے پوچھا ’ پھر؟ ‘۔جواب ملا ’ سو روپے یہیں دے دیجئے‘۔اب بات سمجھ میں آ گئی تو ہم نے پچاس کی آفر دی۔ اس کے انکار پر ہم نے کہا ٹھیک ہے آپ چالان کریں۔ مسکرا تے ہوئے اس نے چالان کی رسید ہمیں دی اور لائسنس رکھ لیا۔دوسرے دن ہم نیشنل بنک گئے۔ بڑی مشکل سے پارکنگ ملی ۔ دس روپے پارکنگ فیس دی، بینک میں قطار میں لگے، تقریباً ایک گھنٹے بعد نمبر آیا۔معلوم ہوا بارہ روپے بنک فیس بھی واجب الادا ہے، دو سو بارہ روپے دیئے پھر یہ مژدہ ملا کے ہاکی اسٹیڈیم کے پاس ٹریفک آفس ہے وہاں سے رسیددکھا کر لا ئسنس حاصل کیا جا سکتا ہے۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ گئے اور لائسنس لے کر آفس پہنچے تو معلوم ہوا ہاف ڈے لگے گا۔ بہر حال ہاف ڈے اور پیسے کے زیاں کے بعد احساس ہوا کہ پولیس والا ہماری مدد کرنا چاہتا تھا اس ہی لیئے تو اس نے ہمیں چوائس دی تھی لیکن ہم سمجھ نہ سکے اور تکلیف اٹھائی۔ٹریفک کے علاوہ دوسرے کرپشن پر بھی نظر ڈال لیجئے۔ ختم ہو چکے ہیں ۔ غبن، بے ایمانی، رشوت ستانی، دھاندلی ، اقربا پروری، اسمگلنگ، لوٹ مار ، اغوابرائے تاوان، انفرادی یا اجتماعی زیادتی، فحاشی یا عریانی، ڈکیتی، راہزنی، اسٹاک ایکسچینج ےا نج کاری کے گھپلے ، قبضہ مافیا، گیس و بجلی کی چوری انکم وسیل ٹیکس میں گڑ بڑ، شراب اور جوئے کے اڈّے وغیرہ سب عنقا ہو چکے ہیں۔ کوئی بینک قرضوں کا نا دہندہ بھی نہیں رہا۔ جعل سازکیفرِکردار کو پہنچ چکے ہیں۔ مہنگائی کا عفریت غائب ہوچکا ہے۔ اب ان حالات میں پولیس چھوٹے موٹے جرائم کی طرف توجہ نہ دے تو کیا کرے ۔ہماری حکومت بیچارے غریب صنعت کاروں کا بھی وقتاً فوقتاً خیال کرتی رہتی ہے اورباہمی تعاون سے ان کی مدد کرتی ہے۔مثلاً ایک دفعہ کسی غریب تاجر نے ہلمٹ کی ایک کھیپ درآمد کرلی یا کوئی چھوٹی موٹی ہلمٹ سازی کی فیکٹری لگالی۔ اس لیئے اس غریب کی مدد کے لیئے ہلمٹ کے استعمال کو لازمی قرار دیدیا گیا ا وراستعمال نہ کرنے کی صورت میں بھاری جرمانے کا خوف غریب پولیس والوں کی کمائی کا ایک ذریعہ بھی بن گیا۔اب چونکہ ہمارا ملک گھناو¿نے جرائم سے پاک ہو گیا ہے اس لیئے پولیس والے بیچارے اب کونے کھدروںکی صفائی میں مصروف رہتی ہے۔ ویسے کچھ بدگمانوں کا خیال ہے سرکار نے بے روزگاری دور کرنے کے لیئے ایک بڑی تعداد پولیس میں بھرتی کرلی ہے اور ان سے کہدیا گیا ہے ،خزانے پر بوجھ بننے کی ضرورت نہیں، خود بھی کھاو¿ اور افسران کو بھی کھلاو¿۔ بالکل اس ہی طرح جیسے کسی صاحب نے ملازم رکھتے ہوئے کہدیا کہ کام زیادہ نہیں ہے اس لیئے تنخواہ نہیں ملے گی ، ہاں تین وقت کا کھانا پیٹ بھر کر ملے گا بلکہ دودھ وغیرہ بھی اگر ہمت کروگے تو دستیاب ہوگا۔ ملازم نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا۔’جناب کام کیا ہو گا‘۔فرمایا ’کچھ زیادہ نہیں، بس پیر صاحب کے دربار پر دن میں تین دفعہ حاضری دینا ہوگی اور وہاں سے اپنے اور ہمارے لیئے تبرک لانا ہوگا“۔

ای پیپر دی نیشن