وطن عزیز میں جس انقلاب کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ سماجی انقلاب ہے کیونکہ یہاں کا سماج کسی بھی تبدیلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ عام طور پر تعلیمی انقلاب کے بعد سماجی انقلاب کی ضرورت نہیں رہتی لیکن جہاں تعلیمی انقلاب نہ برپا ہو سکے وہاں سماج کے اندر تبدیلی غیر روایتی طریقے سے ہی ممکن ہے۔ ہمارا سماج کئی قسم کے مسائل کا شکار ہے۔ مذہبی طور پر بھی ہمارا سماج منقسم ہے اور یہاں پر ذات پات کے مسائل نے بھی سماج کو تقسیم کر رکھا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ استحصالی نظام اور غیر منصفانہ تقسیم زر نے بھی اپنا کام کافی دکھا رکھا ہے۔ جس کی بدولت سماج میں کئی گروپ متحرک ہیں اور اپنے اپنے گروپس کی بقا کیلئے جان دینے سے گریز نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ تبدیلی کا عمل سست رہتا ہے اور مختلف سماجی طبقے اپنی مرضی کی تبدیلی کیلئے کام کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔جہاں سماج ایک جیسا ہے وہ عام آدمی کیلئے کام کرنے کو سراہا جاتا ہے مگر یہاں عام آدمی کو بے بس رکھ کر اور اس کا استحصال کرکے استحصال کنندہ گروپس اپنی بقا کیلئے کام کرتے ہیں اس لیے سماجی ہمواری عمل میں نہیں آتی۔تبدیلی کے عمل کو مثبت راہوں پر گامزن کرنے کیلئے ضروری ہے کہ عام آدمی کا استحصال بند کیا جائے اور وہ گروپس جو ویسے تو عام آدمی ہی کہلاتے ہیں مگر غیر تعلیمی اور غیر شعوری طور پر اپنے ہی خلاف کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس عمل کو روکا جانا بہت ضروری ہے جس کیلئے غیر روایتی طریقے ہی اختیار کرنے پڑینگے۔ چنانچہ سماجی انقلاب کی بات سمجھ میں آتی ہے اور اس کو لاگو کیا جانا ضروری ہے جس کیلئے کچھ مفید اقدامات ضروری ہیں۔ ان اقدامات کو قانونی شکل بھی دی جا سکتی ہے اور ان کو سماج درست کرنے کیلئے ریاستی تحفظ بھی فراہم کیا جانا ضروری ہے کیونکہ تعلیم جو کہ ہر سماج کی بنیاد ہوتی ہے اس کا عمل ہمارے سماج میں بہت ہی سست ہے لہٰذا متبادل ذریعہ اختیار کیا جانا لازمی ہے۔آجکل چونکہ نیا پاکستان بنانے کی ضرورت کا شدت سے احساس کیا جا رہا ہے اسکی وجہ بھی یہی ہے کہ تبدیلی کا عمل اپنے نتائج دکھانے سے قاصر ہے جبکہ ایک عرصے سیاس کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ عام آدمی کے استحصال کے زمانے کو ستر سال ہونے کو آئے ہیں۔ یہ ایک غیر فطری عرصہ ہے ۔ اتنے عرصے میں کسی کو بھی اسکے جائز حق سے محروم نہیں رکھا جا سکتا اور اگر کیا جا رہا ہے تو وہ غیر فطری ہے۔ اس ملک میں اس صورتحال کا سب سے زیادہ فائدہ جاگیردار طبقے نے اٹھایا۔ یہی وجہ یہ کہ قیادت اسی طبقے تک محدود رہی۔ جاگیرداروں کے پاس چونکہ وسائل کی کمی نہیں تھی لہٰذا انہوں نے ہی صنعتی انقلاب کے ثمرات بھی سمیٹے۔ آج ہر صنعتی شعبے کے سربراہ کہیں نہ کہیں سے جاگیردار ہی ہیں لہٰذا اسی سوچ کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں جو انکے موروثی حقوق کا دفاع کرتی ہے۔ این جی اوز نے بھی اسی فلسفے کے تحت پاکستان میں اپنے قدم جمائے ہیں اور آج بھی کام کرنے کیلئے تو عام آدمی بلکہ پڑھے لکھے عام آدمی کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں جبکہ فنڈنگ کے معاملے میں اس پر اعتبار نہیں کیا جاتا بلکہ اس پر وہی گروپ قابض ہے جو اس نظام کا موجود ہے۔ غیر ملکی طاقتوں نے بھی این جی اوز سے وہی کام لیا جو استحصالی طبقہ لینا چاہتا تھا اسکے بعد انہوں نے بھی فنڈنگ سے ہاتھ روک لیا اور آج ان کے مقامی نمائندے فارغ نظر آتے ہیں کیونکہ وہ تو صرف اور صرف فنڈنگ میں دلچسپی رکھتے تھے ، ساتھ ہی پڑھے لکھے عام آدمی بھی فارغ ہو گئے کیونکہ وہ تو حسب ضرورت معاوضے پر کام کرنے کیلئے رکھے گئے تھے۔ این جی اوز کے نظام بلکہ مقامی نظام کا مطالعہ بے حد اہم ہے کہ وہ اس سماج کے عین مطابق ترتیب دیا گیا تھا اور تبدیلی اس کا ہرگز ہرگز مقصد نہ تھا بلکہ اسی نظام نے روایتی طریقے اپنا کر تبدیلی کے عمل کو مزید سست کرنے کیلئے کام کیا ورنہ جتنی فنڈنگ یہاں پر تبدیلی کے نام پر کی گئی ہے اتنی فنڈنگ سے پڑھے لکھے معاشروں میں زیادہ بہتر نتائج سامنے آئے ہیں اور فنڈنگ زیادہ کارگر نظر آتی ہے مگر یہاں پر فنڈنگ کے خاتمے کے ساتھ ہی سارا معاملہ چوپٹ ہو گیا اور سارا این جی اوز نظام یکدم زمین بوس ہو گیا۔سماجی انقلاب کی ضرورت اور بڑھ گئی اور اس کیلئے متبادل اقدامات تجویز کرنے کی سوچ بھی اتنی ہی زیادہ شدت سے سامنے آئی جس پر اب صرف اور صرف ڈائیلاگ ہو سکتا ہے اور اس ڈائیلاگ میں ’’اقدامات‘‘ پر بات زیادہ ہو تو بہتر ہے بجائے کہ سماجی انقلاب کی ضرورت پر بات ہو۔ یہ بات تو طے ہے کہ وطن عزیز میں سماجی انقلاب کی ضرورت ہے۔ ان اقدامات میں مندرجہ ذیل پر بات ہو سکتی ہے۔ہر آدمی اپنے نام کے ساتھ ذات برادری کا نام لکھنے سے گریز کرے۔مذہبی تعلیم اور عام تعلیم میں فرق کو کم کیا جائے۔ہر قسم کا احساسِ برتری سماجی سطح پر ختم کیا جائے۔جہالت کو ختم کرنے کیلئے ہر بچے کا سکول جانا لازمی قرار دیا جائے۔سب کیلئے ایک جیسا قومی لباس ہو اور قومی لباس عزت و توقیر میں اضافہ کیلئے سرکاری سطح پر اقدامات کیے جائیں۔رہائش کیلئے بھی مختلف قسم کے ڈیزائن اختیار کرنے کی بجائے ایک جیسا ڈیزائن ہو اور اس میں رہنے والے نفوس کی تعداد ہی اس میں تبدیلی کی بنیاد ہو۔سرکاری سطح پر ذرائع نقل و حمل فراہم کیے جائیں اور ان کا حصول آسان اور کم قیمت ہو۔تفریح کے ذرائع یکساں نوعیت کے ہوں اور ان کا حصول بھی آسان اور کم قیمت ہو۔درس و تدریس میں یکساں قسم کا نصاب لاگو کیا جائے۔ نصاب میں ہر انسان کو محترم قرار دے کر اسکی حرمت کو یقینی بنایا جائے۔ایسے اقدامات عام آدمی کے لائف سٹائل کا مطالعہ کرکے تجویز کیے جائیں اور سماج اس پر خود بھی کاربند ہو تو تبدیلی کا عمل تیز ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں ایسے اقدامات کو ریاستی تحفظ کی ضرورت نہ ہو گی۔
سماجی انقلاب کی ضرورت
Jan 01, 2019