لاہور (پ ر) وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد کی زیرصدارت اعلیٰ سطحی اجلاس میں 300 اینستھیٹسٹس، ٹیکنالوجسٹس کی بھرتی اور 400 میڈیکل آفیسرز کی بطور اینستھیزیا ماہر تربیت کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اجلاس میں سیکرٹری پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ زاہد اختر زمان، سپیشل سیکرٹری محمد خان رانجھا، ایڈیشنل سیکرٹری فاطمہ شیخ، ڈی جی ہیلتھ سروسز ڈاکٹر منیر احمد ،ڈاکٹر رشید اختر،ڈاکٹر عاصم، ڈاکٹر مختار عباس اور دیگر افسروں نے شرکت کی۔وزیر صحت نے کہا کہ نئے اینستھیزیا ماہرین کی بھرتی پبلک سروس کمیشن کے ذریعے کی جائے گی۔ ماہ رواں (جنوری) سے میڈیکل آفیسرز کی بطور اینستھیٹسٹ تربیت شروع کردی جائے گی۔ حال ہی میں اینستھیٹسٹ کی تربیت مکمل کرنے والے 34 میڈیکل آفیسرز کو مرحلہ وار ضلعی اور تحصیل ہسپتالوں میں بھیجا جارہا ہے۔ ڈاکٹر یاسمین راشد نے بڑے ہسپتالوں پر مریضوں کا دبا? کم کرنے کے لئے 31 مارچ تک ضلعی ہسپتالوں سے ریفرل سسٹم کا میکانزم مکمل کرنے کی ہدایت کی۔ دریں اثنا وزیر صحت پنجاب کی زیرصدارت ایک اور اجلاس میں ہیپاٹائٹس کلینکس کے لئے سروس ڈیلیوری پیکیج پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اجلاس کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ پنجاب میں 50 لاکھ سے زائد افراد ہیپاٹائٹس کی مختلف اقسام کا شکار ہیں۔ مصر کے بعد پاکستان ہیپاٹائٹس سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے۔ ڈاکٹر یاسمین راشد نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ پنجاب کی 4.7 فیصد آبادی کا ہیپاٹائٹس میں مبتلا ہے۔انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ہیپاٹائٹس کلینکس کی استعداد کار مرحلہ وار بڑھائی جائے گی۔ پنجاب کو 2030تک ہیپاٹائٹس سے نجات دلانے کا ہدف مقرر کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد کی زیرصدارت اجلاس میں کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ ایکٹ 2019 کے مسودے پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں سابق نگران وزیر صحت پروفیسر ڈاکٹر جواد ساجد، سیکرٹری سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر ثاقب ظفر، سپیشل سیکرٹری شکیل احمد، عثمان معظم، ڈین چلڈرن ہسپتال پروفیسر مسعود صادق اور پرنسپل ’سمز‘ پروفیسر ایاز محمود نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں پی کے ایل آئی کے افعال کار میں بہتری کے لئے قانون سازی کے تمام پہلو?ں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیر صحت نے کہا کہ کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ( پی کے ایل آئی) کو گردہ اور جگر کے علاج کا مفید اور موثر ادارہ بنانا چاہتے ہیں۔ پی کے ایل آئی ایکٹ بنانے کا مقصد جسمانی اعضا کی پیوندکاری میں قانونی رکاوٹیں دور کرنا ہے۔ پی کے ایل آئی بل کو تمام سٹیک ہولڈرز کے تعاون سے حتمی شکل دی جائے گی۔