جلتا مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر میں سیاسی سرگرمیاں

1947؁ء میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر پر جبراً قبضہ کیا اور 73سال گزرنے کے بعد بھی کشمیریوں کو دبانے اور خریدنے میں ناکام رہا ہے۔ 5اگست 2019؁ء کو بھارتی اقدامات کا مقصد بھی کشمیری مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنا ہے۔ نریندر مودی بھارت کے وزیر اعظم بننے سے پہلے بھی گجرات میں مسلمانوں کے خون سے اپنا چہرا رنگ چکے تھے۔ مقبوضہ کشمیر میں کئی ماہ سے جاری لاک ڈائون بھارت کی بڑی جمہوریت اور سیکولر کی تصویر عیاں کر رہے ہیں۔ ابھی حالیہ پارلیمنٹ سے مسلمانوں کیخلاف شریعت بل منظور کرانا جس میں مسلمانوں کے بنیادی حقوق کو ختم کرنا ہے۔ جس کے خلاف پوری دنیا میں احتجاج ہو رہا ہے۔ لیکن صرف بھارت کے اندر 32کروڑ مسلمان اور دیگر اقلتیں سراپا احتجاج ہیں۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان اور پوری حکومت اور دیگر اداروں نے اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ بھارت کنٹرول لائن پر فائرنگ اور جارحیت کا سلسلہ بھی بدستور جاری ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کو اس ساری صورتحال سے آگاہ کیا ہے اور اسی طرح بین الاقوامی برادری تک بھی آواز پہنچائی ہے۔ چند دن قبل آزاد کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان نے ایک تقریب میں برملا کہا ہے کہ پاکستان کے حساس اداروں کے کچھ لوگوں نے مجھے بتایا ہے کہ میں آخری وزیر اعظم ہوں اور اس دوران وہ بھر پور آنسو بہاتے رہے۔ اس سلسلہ میں آزاد کشمیر پارلیمنٹ میں ’ان کیمرہ‘ اجلاس کا اہتمام کیا گیا جس میں پاکستان تحریک انصاف کے صدر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری مسلم کانفرنس کے قائد سردار عتیق احمد خان اور جماعت اسلامی کے رہنماء عبدالرشید ترابی ، پیپلز پارٹی کے رہنماء چوہدری یٰسین سمیت اراکین پارلیمنٹ نے شرکت کی۔ ماسوائے سابق وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید حکومتی وزیر مشتاق احمد منہاس اور لاہور سے منتخب ہونیوالے سینئر پارلیمنٹر غلام محی الدین دیوان جو کہ خرابی موسم کی وجہ سے نہ پہنچ سکے۔
پارلیمنٹ سے مشترکہ طور پر سوال و جواب اور تقریروں کے بعد متفقہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں آزاد کشمیر کی آئینی اور سیاسی حیثیت بہر صورت برقرار رکھنے کا عزم کیا گیا۔ پارلیمنٹ میں سوال کے باوجود وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر نے سٹیٹس تبدیل کرنے والوں کا نام نہ بتا سکے۔ ہر صورت اس سلسلہ میں پی ٹی آئی کے رہنماء بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے کہا کہ راجہ فاروق حیدر ہر بات پر آنسو بہاتے ہیں۔ وہ سکیورٹی رسک بن چکے ہیں۔ ایسے آدمی کو کشمیریوں کی نمائندگی کا کوئی حق نہیں ہے۔ اس سلسلے میں صدر آزاد کشمیر سردار مسعود احمد نے بھی درست کہا کہ کشمیری رونے دھونے کی بجائے جدوجہد جاری رکھتے ہیں۔ ان کا اشارہ بھی غالباً راجہ فاروق حیدر کی طرف تھا۔
18دسمبر کو کشمیری رہنماء رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس کی برسی جو ہر سال عقیدت و احترام سے منائی جاتی ہے۔ چوہدری غلام عباس کشمیریوں کے مسلمہ لیڈر تھے۔ انہوں نے شیخ عبداللہ کی نیشنل کانفرنس کے مقابلے میں آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے دو قومی نظریہ کی بنیاد پر بننے والے ملک پاکستان کی تحریک میں بھر پور حصہ لیا اور عملی کردار ادا کیا۔ وہ قائد اعظم کے دست راست تھے۔ نہ جھکے ، نہ بکے۔ قائد اعظم نے مسلم لیگ کے مقابلے میں کشمیر میں آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کو متبادل قرار دیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد بھی چوہدری غلام عباس نے کسی عہدے اور رتبے کا لالچ نہیں کیا اور وصیت کے مطابق پاکستان میں دفن ہونا پسند کیا۔ آپ کا مزار کشمیر اور پاکستان کے سنگم فیض آباد میں واقع ہے۔ اس بار تقریب میں آزاد کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان اور ان کی ٹیم کے اہم رکن اور مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری شاہ غلام قادر ، سینئر وزیر طارق فاروق احمد چوہدری اور دیگر وزراء بھی موجود تھے۔ تقریب میں وفاقی وزیر شیخ رشید احمد اور اعظم سواتی نے بھی شرکت کی اور کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کر کے بھارت کو بھر پور پیغام دیا لیکن دوسری طرف مسلم لیگ کے وزراء کی شرکت کو مسلم لیگی کارکنوں نے پسند نہیں کیا۔ جس کی بنیادی وجہ وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان اور دیگر کے سینے پر آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کے بیج آویزاں تھے۔ یہ سب پرانی یادیں تازہ کرتے رہے۔ اس کو کیا رنگ دیا جا سکتا ہے۔ اپنے خطاب میں آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کے بچھڑنے کو المیہ قرار دے رہے تھے۔ اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے میر پور ضمنی الیکشن میں یہ ساری قوتیں صف آرا تھیں۔ اسکے بعد سمجھ آتی ہے کہ ان سب کا مقصد صرف بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کا راستہ روکنا تھا۔ جس میں ناکام رہے۔ مسلم کانفرنس کے قائد سردار عتیق احمد خان اور اس کے صدر محمد شفیق جرال کو کریڈٹ جاتا ہے انہوں نے سب کو باری باری اعتراف جرم کرنے پر مجبور کر دیا۔ دیکھا جائے تو راجہ فاروق حیدر کا یہ بیان کہ وہ کسی سے نہیں ڈرتے اور پاکستان میں اچھا رسپانس نہیں دیا۔ سمجھ سے بالا تر ہے۔ یہی باتیں ممتا زراٹھور اپنے آخری دنوں میں کیا کرتے تھے۔ اور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین بھی ایسے ہی شگوفے چھوڑتے رہتے تھے جو اب تاریخ کی گرد میں گرد آلود ہوگئے ہیں۔ کشمیری پاکستان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ ان کا اوڑھنا بچھونا دو قومی نظریہ اور کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ ہے اس لئے کشمیری قیادت کو بھارت اور پاکستان کو ایک پلڑے میں نہیں تولنا چاہیے۔ مقبوضہ کشمیر کی آل پارٹی حریت کانفرنس اور پوری کشمیری قیادت حکومت پاکستان کی کشمیر پالیسی اور کشمیریوں کی حمایت پر مطمئن ہے اور روزانہ اس کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن