رنگ برنگے لوگ

Jan 01, 2020

روبینہ فیصل ....دستک

حاسد لوگ وہ ہیں جنہیں ہر وہ چیز بالکل نظر نہیں آتی جو انکے پاس ہے اور ہر وہ چیز بڑی ہو کے نظر آتی ہے جو انکے پاس نہیں ہے ۔ اپنی کامیابی پر سب کو خوش ہوتا اور اسے پو رے ذوق و شوق سے سیلیبریٹ کرتے دیکھنا چاہتے ہیں لیکن کسی کی کامیابی پر انہیں کوئی پرانا غصہ ، کوئی پرانی گستاخی اور اگر کچھ ایسا نہ بھی یاد آئے تو کوئی ضروری کام یاد آجاتا ہے ۔ وہ خوش ہیں تو سب کا پائوں ہاتھی کے پائوں میں ہونا چاہیئے ،کوئی اور خوش ہے تو چیونٹی انہیں کاٹ جا تی ہے یا مچھر ان کے ناک میں گھس جا تا ہے اور وہ بس بھنبھنا تے رہتے ہیں۔ ایسے لوگ اکثر دنیاوی نعمتوں سے مالا مال ہو تے ہیں کہ خدا بھی انکے شر سے محفوظ رہنا چاہتا ہے اس لئے ان کو جی بھر کے نوازتا ہے اور اسی لئے انکے حسد کو برداشت کرنا ہر خاص و عام پر فر ض ہو تا ہے کہ ان سے تو خدا بھی بچ بچ کر چلتا ہے۔دیگ کے دل جتنے یا حد سے زیادہ دنیا دار دوست یا رشتہ دار انہیں خوش رکھنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں ۔کسی میں ہلکی سی بھی بغاوت کی رمق باقی ہو ،اسے جلد یا بدیر انہیں خیر باد کہنا پڑتا ہے یا یہ خود ہی ایسے" گستاخوں "کو نشان ِ عبرت بنا دیتے ہیں ۔ان لوگوں کی پہچان کیلئے ایک اور بات ذہن نشین کر لیں کہ انکے چہروں پر مسلسل پریشانی طاری رہتی ہے کیونکہ اپنی خوشی میں بھی یہ اسی فکر میں مبتلا رہتے ہیں کہ کون کون ان کی خوشی سے جل رہا ہے اور اسے مذید کیسے جلایا جائے اور دوسروں کی خوشی میں تو ویسے ہی یہ جل بھن رہے ہو تے ہیں تو اگر یہ لوگ ہنس بھی رہے ہوں تو انکے چہروں سے یہ پریشانی کہیں نہیں جاتی کہ یہی "پریشانی" کا مستقل گھر ہے ۔
دنیا دارلوگ: یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر کوئی دوسرا ہشیاری ،مکاری اور دوغلی حرکتیں کرے تو اسے منافق کہتے ہیں مگر خودیا اپنا کوئی پیارا کرے تو اسے دنیا داری یا مصلحت پسند ی کہتے ہیں اس لئے دنیا داری کی رسم نبھاتے ہو ئے یہاں بھی انہیں ـ"دنیا دار" ہی لکھا جا ئے گا ۔ ایسے لوگ جس کے منہ پر ہو تے ہیں اسی کے بس ہو تے ہیں ، اس کے بچپن سے لے اسکے فوت ہو نے تک ( جو ابھی ہونا ہو تا ہے ) ہرواقعے میں ایسے دلچسپی لیتے ہیں جیسے وہ انہی کے ساتھ پل بڑھ کر جوان ہو ئے ہیں اور انہی کے ساتھ فوت ہو نے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انکے سامنے بیٹھ کر انکے دشمنوں کو اپنا دشمن کہتے ہیں اور انکے دوستوں کیلئے جان قربان کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ یہ بات قابل ِ ذکر نہیں ہے کہ جب وہ انکے" دشمنوں" کے پاس بیٹھے ہو تے ہیں تو یہی عمل اسی ترتیب سے دہراتے ہیں ۔ مگر یاد رکھئیے یہ دنیا داری نہیں کوئی آسان کھیل ، اک آگ کا دریا ہے اور تیر کر جاناہے اور اس کیلئے بہترین تیراک ہو نا ضروری ہوتا ہے اسی لئے ہر کوئی خالص دنیا دار نہیں ہو سکتا اس کیلئے سلوک کی بہت سی منزلیں طے کر نی پڑتی ہیں اور سب سے بڑھ کر ذہانت اور بے غیرتی کا لیول ایک خاص مقدار میں چاہیئے ہو تا ہے جو ہر ایک کے نصیب میں نہیں ہوتا ۔ اس لئے دنیا دار بننے کی کوشش تو بہت سے کرتے ہیں مگر کامیاب وہی ہو تے ہیں جن کو انسانی نفسیات کو اپنی بے غیرتی اور ذہانت سے قابو کرنے کا فن بخوبی آتا ہو ۔ اور یہ کمبنیشین بہت کم لو گوں میں ہوتا ہے کیونکہ اکثر لوگ یا تو گھامڑ ہو تے ہیں یا پھر بے غیرتی کے اس معیار تک نہیں پہنچ پا تے لہذا کامیابی انہی کے قدم چومتی ہے جن کو خدا نے مندرجہ بالا دونوں صلاحیتیوں سے جی بھر کر نوازا ہو اور یہ وہ گُن ہے جو انسان کو نہ کوئی تعلیمی ادارہ سکھا سکتا ہے نہ ماں کی گود یا باپ کی تربیت ، یہ تو اللہ کا وہ خاص فضل ہے جو کسی کسی کا نصیب ہوتا ہے ۔ جیسے محنت سے کوئی بھی انسان ایک کامیاب ڈاکٹر انجینئر یا وکیل بن سکتا ہے مگر گلوکار یا رائٹر کی کامیابی کیلئے محنت کے ساتھ ساتھ خدادا صلاحیت نہ ہو تو وہ ممکن نہیں رہتی بالکل اسی طرح یہ منافقت اوہ ۔۔معذرت دنیا داری بھی کچھ ایسی ہی نعمت ہے جو محنت سے نہیں بلکہ اندرونی صلاحیت سے ہی کامیابی کی منزلیں طے کرتی ہے ۔
چِل مِل لوگ : عبداللہ دیوانہ جیسے بیگانی شادی میں ناچتا ہے یہ لوگ بھی ہر جگہ ناچتے پھرتے ہیں ۔ مطلب انہیں کسی بات سے کم ہی فرق پڑتا ہے کہ کون انکے بارے میں کیا کہہ رہا ہے اور کیا سوچ رہا ہے بلکہ اگر کوئی انکے بارے میں سوچ ہی لے تو یہ بڑے خوش ہو جاتے ہیں ۔ ایسے لوگ بھی آٹے میں نمک کے برابر ہیں اور ان کی یہ درویش صفتی ان کوخدا کا بہت بڑا انعام ہو تی ہے ۔ ہر گروپ انہیں اپنے گروپ میں اس لئے رکھنا چاہتا ہے کہ انکی اس" درویشی" کو حسب ِ ضرورت استعمال کیا جاسکے ۔ جب نچوانا ہو نچوا لیا ، جب مر ثیہ پڑھنا ہو وہ بھی پڑھوا لیا ۔ یعنی ان کی معصومیت کو جیسے مر ضی نچوڑ لیا جائے انکے فرشتوں کو بھی خبر نہیں ہو تی ۔ دھمال ڈالنے کے ماہر ہو تے ہیں ۔ جوش میں آئیں تو بھونڈی آواز میں ایسا گانا بھی گا دیتے ہیں کہ آنیوالی نسلوں تک انکی گونج باقی رہنے کے قوی امکانات ہو تے ہیں ۔ انہیں بڑی سے بڑی بُری خبر بھی سنا دو تو ایسے دیکھیں گے جیسے کہہ رہے ہوں "بس یہی یا کچھ اور بھی ؟ "۔ان کو کسی فوتگی پر افسوس کرنے ساتھ لے جائو تو ان سے جانے سے پہلے وعدے لینے پڑتے ہیں کہ وہاں جہاں کر ہنسنا تو دور کی بات مسکرانا بھی نہیں اور خود کو اس بات پر پکا کرنا پڑتا ہے کہ دوران ِ افسوس ان سے آنکھیں چار تو کیا دو بھی نہ ہوں ، ورنہ جو لطافت چہرے پر بکھرے گی ،پرسہ لینے والوں کے دل کو کثافت سے بھر دے گی ۔

مزیدخبریں