اسلام آباد (عترت جعفری )تعمیراتی پیکج کے تحت منصوبے اگر چل پڑتے ہیں تو یہ حکومت کے لئے ریونیو کے حساب سے بھی گھاٹے کا سودا نہیں اس کو اب تک کے رجسٹرڈ منصوبوں سے جن کا حجم 186بلین روپے بتایا گیا اس سے 60ارب روپے سے ذائد سالانہ ریونیو بڑھنے کا امکان ہے ،ایک تخمینہ ہے 1500سو ارب روپے کے منصوبے پائب لائن میں ہیںاور آئندہ مہینوں میں اگر ان کی رجسٹریشن کا مرحلہ مکمل ہو جاتا ہے تو تعمیرات ریونیو دینے والا سب سے بڑا سیکٹر بن سکتا ہے ،اے فی آر کے ذرائع کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے 121 ارب روپے کے 330 منصوبوں کے ساتھ ساتھ 88ارب سرمایہ کاری کے مزید 218 عارضی منصوبے رجسٹرڈ کرلیے ہیں۔ 30 دسمبر تک 226ارب روپے کی اشاریاتی سرمایہ کاری کے ساتھ تعمیراتی شعبے کے لیے ٹیکس مراعات حاصل کر کے 3ہزار 627 خریداروں نے ان پراپرٹیز کو خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی ، تعمیراتی پیکیج کو ٹیکس قوانین (ترمیمی) آرڈیننس، 2020 کے ذریعے نافذ کیا گیا جس کے تحت انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 میں ایک نیا سیکشن 100ڈی اور گیارہواں شیڈول داخل کیا گیا، یہ پیکیج دائرہ کار میں بہت وسیع ہے اس کا اطلاق زمین کے بلڈرز اور ڈیولپرز دونوں پر ہو گا اور اس میں دونوں تعمیراتی اور ترقیاتی منصوبوں کا احاطہ کیا گیا ہے، بلڈرز اور ڈیولپرز رہائشی اور تجارتی عمارتوں کے سلسلے میں پیکج کے ٹیکس فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔اس کا فائدہ افراد اپنی حیثیت سے قطع نظر اٹھا سکتے ہیں، اس میں بلڈروں اور ڈیولپروں کے لیے بالترتیب فی مربع فٹ اور فی مربع یارڈ کی بنیاد پر ٹیکس کے نرخ مقرر ہیں۔کم لاگت والے رہائشی منصوبوں کے معاملات میں اس حساب سے ٹیکس میں 90 فیصد کمی کی گئی ہے ۔