آج دو ہزار اکیس شروع ہو رہا ہے دنیا بھر میں گذرا ہوا سال ہمیشہ ایک مشکل اور خوفناک سال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ دو ہزار بیس کا آغاز کرونا وائرس کے ساتھ ہوا اور پھر سارا سال دنیا کے بیشتر ممالک اس وائرس کی تباہ کاریوں کا شکار نظر آئے۔ اس وائرس نے انسان کو اس کی بیبسی کا احساس بھی دلانے کی کوشش کی ہے۔ کسی کو احساس ہوا ہے یا نہیں یہ الگ بات ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ نت نئی ایجادات اور بیپناہ ترقی کے زعم میں مبتلا حضرت انسان شاید سب کچھ بھلا چکا تھا لیکن کرونا وائرس نے اسے کچھ نہ کچھ سوچنے پر ضرور مجبور کیا ہو گا۔ ہر وقت نئی ایجادات اور ترقی کے سفر میں مبتلا انسان کو ایک وائرس نے گھر میں بند کر دیا۔ کئی ماہ گذرنے کے باوجود آج بھی اس وائرس سے نجات نہیں مل سکی۔ کہیں ویکسین تیار ہو رہی ہے تو کہیں وائرس پہلے سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ حملہ آور ہو رہا ہے۔ دنیا دو ہزار اکیس میں اس وائرس کے خوف میں داخل ہو رہی ہے۔ دعا ہے کہ اس سال اس وائرس سے نجات ملے، اس کا مکمل علاج ریافت ہو سکے اور دنیا ایک مرتبہ پھر معمول پر آ سکے۔ بچوں، جوانوں، بزرگوں اور خواتین کو اس جان لیوا وائرس کے خوف سے نجات ملے۔ دو ہزار بیس، بیماری، تکلیف، اذیت اور موت کے خوف میں گذرا ہے۔ وائرس ہزاروں قیمتی جانے نکل گیا۔ کرونا نے دنیا کی بڑی بڑی معیشتوں کا بیڑہ غرق کر دیا۔ پاکستان بھی اس کی وجہ سے بہت زیادہ متاثر ہوا ہے۔ وطن عزیز میں بالخصوص کمزور طبقہ کا نہایت متاثر ہوا ہے۔ اس دوران کاروبار بند ہونے سے جو مناظر سڑکوں اور چوراہوں پر کمزور طبقے کے حوالے سے دیکھنے کو ملے ہیں انہوں نے بہت تکلیف دی ہے۔ یہ مناظر زندگی کا سب سے بڑا سبق بھی ہیں۔ یہ وہ سال تھا جب لوگوں کو کام نہ ملنے کی خوف نے گھیرے رکھا اور وہ مجبوری میں بھیک مانگتے نظر آئے۔ اللہ نہ کرے میرے ملک کو دوبارہ کبھی ایسا وقت دیکھنا پڑے۔ جو گذر گیا ہے اللہ کبھی ایسا وقت دوبارہ نہ لائے۔ پاکستان میں یومیہ اجرت پر کام کرنے، کمزور مالی حیثیت میں زندگی گذارنے والے افراد بہت بڑے امتحان سے گذرے ہیں۔ عین اس وقت یہ مالداروں، صنعتکاروں، جاگیر داروں کے لیے بھی آزمائش یا سبق تھا کہ وہ جان سکیں کہ غیر ضروری مال و دولت یا سرمایہ بھی کسی کام نہیں آتا۔ زندگی میں ایسا وقت بھی آتا ہے جب آپ وسائل ہونے کے باوجود اپنے گھر سے بھی باہر نہیں نکل سکتے۔ اللہ ہمیں آج سے شروع ہونے والے نئے سال میں کرونا سمیت دیگر مشکلات سے نجات عطائ فرمائے۔ کرونا وائرس کی شدت کے دنوں میں بھی مفاد پرست اور ظالم افراد منفی کارروائیوں سے باز نہیں جہاں اس دوران مدد کا جذبہ نظر آیا وہیں مفاد پرست بھی حرکت میں رہے۔ کہیں ناجائز منافع خوری تھی، کہیں ذخیرہ اندوزی تھی، کہیں استحصال تھا تو کہیں مجبوری سے فائدہ اٹھایا جاتا رہا۔ جہاں مدد کرنے والے نظر آئے وہیں مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے والے ظالم بھی کارروائیاں کرتے رہے۔ نئے سال کا آغاز اس عزم کے ساتھ ہونا چاہیے کہ ہم بگڑی عادتوں سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
حکومت پاکستان نے عوام کو نئے سال کے آغاز پر عوام کو بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا تحفہ دیا ہے۔ سال کے آخری دن وزیراعظم عمران خان نے اشیاء خوردونوش کی قیمتوں کو قابو کرنے کے حوالے سے اجلاس بھی کیا۔ سال بھر ایسے اجلاس جاری رہے۔ وزیراعظم عمران خان نوٹسز لیتے رہے لیکن بدقسمتی سے اشیائ خوردونوش کی قیمتوں کو قابو نہ کیا جا سکا۔ دو ہزار بیس وہ مشکل سال تھا جب پاکستان کو چینی اور گندم جیسی بنیادی ضروری اشیائ درآمد کرنا پڑیں۔ چینی اور گندم میں ہم خود کفیل ہوا کرتے تھے لیکن دو ہزار بیس میں ہم کرونا وائرس کی تباہ کاریوں کا شکار رہے وہیں حکومتی سطح پر فیصلہ سازی کرونا وائرس سے بھی زیادہ تباہ کن ثابت ہوئی۔ وزرائ کے غلط فیصلوں کا بوجھ عوام کو اٹھانا پڑا، عوام پر مہنگائی کے جن کا قبضہ رہا۔ ادویات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ آٹے کی قلت رہی۔ آٹا ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر فروخت ہوتا رہا جب کہ چینی کی قیمتیں بھی ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں۔ چینی کی ایک سو پندرہ روپے فی کلو تک فروخت ہوتی رہی۔ پھلوں اور سبزیوں کی قیمتوں کا بھی یہی حال رہا۔ کبھی کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ادرک آٹھ سو روپے فی کلو ہو جائے دو ہزار بیس کی سختیوں میں پاکستانیوں نے ایک مشکل یہ بھی دیکھی ہے کہ وہ پھل اور سبزیاں جن کی پیداوار میں ہم خود کفیل سمجھے جاتے تھے ہم ان سے بھی محروم رہے۔ نئے سال کے آغاز پر بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی کی نئی لہر آئے گی۔ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔ حکومت اپنے تئیں انہیں قابو کرنگ کی کوشش کرے گی لیکن ناکام رہے گی۔ چند چھاپے ہوں گے، کچھ گرفتاریاں ہوں گی لیکن کوئی کامیابی نہیں ہو گی۔ کیونکہ لاگت میں اضافے کے بعد کسی بھی چیز کی قیمت میں کمی ممکن نہیں ہے۔ دوہزار بیس اشیائے خوردونوش کی مناسب قیمتوں اور بلا تعطل فراہمی کے حوالے سے بھی بدترین رہا ہے۔ حکومت کا کوئی قدم کوئی فیصلہ کوئی حکمت عملی کامیاب نہ ہو سکی۔ اللہ کرے کہ دو ہزار اکیس میں اس حوالے سے عام آدمی کی زندگی میں سکون آ سکے۔ یہ دعا اور خواہش تو کی جا سکتی ہے لیکن عملی طور پر اس حوالے سے کوئی بہتری کی امید نہیں کی جا سکتی۔
سال کے آخری دن مسلم لیگ کی ایم پی اے حنا پرویر بٹ نے مریم نواز شریف کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے "وزیراعظم ان شائ اللہ" نون لیگ سال کا اختتام اس خواہش پر کر رہی ہے اللہ اس ملک پر رحم فرمائے۔ وہ خاتون جس کے والد نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، ملک کو قرضوں کے جال میں پھنسایا۔ نواز شریف ملک کے دفاعی اداروں کو کمزور کرنے کی بین الاقوامی سازش کا حصہ بنا رہا اور اب اس کی بیٹی ملک کی وزیراعظم بننے کی خواہش رکھتی ہے۔ اللہ اس ملک پر رحم فرمائے۔ کرونا کے ساتھ ساتھ کرونا سے زیادہ خطرناک اور تباہ کن سیاست دانوں سے بھی نجات عطائ فرمائے۔ مولانا فصل الرحمن جیسے مفاد پرستوں سے نجات ملے۔ وہ جو مذہب کے نام پر سیاست کرتے رہتے ہیں، ملک کے نوجوانوں کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں ان مفاد پرستوں سے نجات ملے۔ میاں نواز شریف کی جماعت نے سال کے آخری دن ایک اور یو ٹرن لیا ہے۔ وہ ضمنی انتخابات میں بھی حصہ پے رہے ہیں اور سینیٹ الیکشنز میں بھی حصہ لے رہے ہیں۔ ان سیاست دانوں کی اصلاح کے لیے بھی دعا ہی کی جا سکتی ہے۔ تین دہائیوں سے قوم کے ساتھ جھوٹ بولنے والوں کے لیے ایک نئی دہائی بھی شروع ہو رہی ہے دیکھتے ہیں اس دہائی میں یہ ملک و قوم پر کتنا ظلم کرتے ہیں۔قارئین کرام کو نیا سال مبارک ہو۔ اللہ تعالیٰ اس برس ہمیں مشکلات سے بچائے اور ہمیں اسلام، پاکستان، مسلم امہ اور بالخصوص پاکستان کے مظلوم عوام کی خدمت کا موقع عطاء فرمائے۔ آمین۔