کتنے آدمی تھے کالیا ؟؟؟
شاید سو !! شاید دو سو !!! شاید اس سے بھی زیادہ
دماغ کتنے تھے ؟؟
دماغ ایک ہی تھا لیکن سر بہت سے تھے !!
اوہ !! پھر سوچ کا تو سوال ہی نہیں بنتا۔سوچ بھی ایک ہی ہوگی۔ جی سائیں۔۔
مقصد بھی ایک تھا !! انسان کتنے تھے ؟؟
بھائی انسان پہلے ہی مارے جا چکے تھے۔ مجھے کہیں نظر نہیں آئے۔عرصہ ہوا ہم نے انسان کی صورت نہیں دیکھی۔ انسان نہیں تھے۔ جانور تو ہوں گے جو آگ لگی دیکھ کر بجھانے کی کوشش تو کرتے ہی ہیں۔لیکن وہاں تو جانور بھی نہ تھے۔ ادھورے ، ٹوٹے پھوٹے، ذہنی کچ کے عالم میں نہ دکھائی پڑتا ہے ، نہ ہی سنائی دیتا ہے۔
ضمیر جعفری کی نظم " آدمی" دیکھیں تو بات اب قصر اور کار سے کہیں آگے جا چکی ہے اور سراسیمگی کی دھند خوف سے لپٹ گئی ہے۔ ڈارون کی یہ گتھی سلجھنے میں نہیں آ رہی کہ ہم پہلے بندر تھے یا آہستہ آہستہ بن رہے ہیں۔مجھے بچپن میں پڑھی وہ کہانی یاد آ گئی۔ایک شخص ٹوپیاں بیچا کرتا تھا۔ایک دن اس کا گزر جنگل سے ہوا اور وہ ایک درخت کے نیچے سو گیا اور بندر اس کی تمام ٹوپیاں لے کر درخت پر چڑھ گئے۔وہ بہت سٹپٹایا لیکن بندر صرف نقل اتارنے کے عادی ہیں سو اسے اپنی ٹوپی اتار کر پھینکنا پڑی۔اس طریقہ سے سارے بندروں نے بھی اپنی اپنی ٹوپیاں اتار کر پھینک دیں۔
روایت و جدت کی ایک نئی جنگ در پیش ہے کہ ڈارون کے نظریہ بھی گڈ مڈ ہے کہ ہم پہلے بندر تھے یا اب بندر بننے کا سفر طے کر رہے ہیں۔ ٹوپی چھیننے کا عمل اب دامن اور گریبان سے ہوتا ہوا چور دروازے سے خلوت خانوں کی دھجیاں نوچ رہا ہے۔
پطرس بخاری نے "لاہور کا جغرافیہ"
میں شہر لاہور کے پھیلاؤ کو ورم سے تشبیہہ دی ہے۔ یہ ورم اب لوگوں کے ذہنوں پر پھیل چکا ہے۔ فاسد مواد سے بھرا ورم انسانیت کے جسم پر ایسے نمودار ہوا ہے گویا بے حسی اور حیوانیت کی بد بودار پیپ ختم ہونے میں نہیں آتی۔ کون جان سکتا تھا کہپتھروں کو رگڑ کر آگ جلانے کی کوشش میں آدمی انسانیت کو ہی ایندھن بنا ڈالے گا۔ اور ایسی آگ ایجاد کرے گا جو ماچس سے نہیں۔فتوی اور فیصلہ سے بھڑکنے لگے گی۔ایسے فتوی جن کی مدد سے ہجوم کو ایٹم بم میں تبدیل کیا جا سکے گا۔جہاں چار لوگ جمع ہوئے۔انسانیت کی لاش پہ رقص شروع ہو گیا۔ درخت پر پھل نہ بھی لگے لیکن وہ سایہ تو دیتا ہے۔ اس کے پتے ، شاخیں ،جڑیں کسی نہ کسی طور استعمال میں لا کر فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔پھر انسان اتنا بے سود کیسے ہو سکتا۔ بے سود بھی نہیں۔اسکے منفی جذبات کیلئے ہر لفظ بہت چھوٹا ہے۔ذہن سازی کے کارخانے بلدیہ کے سانحے بن گئے ہیں اور ہر گلی محلے میں دھڑا دھڑ ان کارخانوں کا مال بک رہا ہے۔اس معاشرے میں ہر دریا ،کنواں ،ندی ،
چشمے یہاں تک کہ جوہڑ اور نالے بھی آلودہ وحشی سوچ کے مراکز بنائے جا چکے ہیں اور پوری قوم اسی علت میں مبتلا ہے۔یہاں انسانیت کا جنازہ بڑی دھوم سے اٹھایا جاتا ہے۔ بہتے پانی میں ایسا پتھر پھینکا جاتا ہے جو کرک جیسے سانحات کو جنم دیتا ہے۔اس کی ابتدا کہاں سے ہوئی شاید کسی کو بھی یاد نہ ہو لیکن اس کے نشانات ہر شہر میں موجود ہیں۔ہم اجتماعی تفسیر کے مارے ہوئے ہیں۔گنتی کرنے کی عادی قوم نے درندے بھی انسانوں میں شمار کر لیے ہیں۔بے چارے نادرا جس کی ویب سائٹ جس پہ پرانے کارڈز کو اپ ڈیٹ کرنے کی سہولت میسر ہی نہیں وہاں کی گنتی بھی مشکوک ہی ہے۔چابی والے کھلونے ہیں جو چابی دینے سے ہی پٹاخہ بن جاتے ہیں اور چابی بھرنے کا عمل بس ایک ہی بار کیا جاتا ہے۔ فیصلوں میں فریقین ، گواہ اور دلیل ہوتی ہے لیکن چابی بھرا گیا ایک ہجوم اور طے شدہ فیصلے پیدائشی اندھے بہرے ہیں۔سو مشاہدہ کا تو سوال ہی نہیں اٹھتا۔
غالب کو جانے کیا نظر آیا:
اصل شہود و شاہد و مشہود ایک ہے
حیراں ہوں پھرمشاہدہ ہے کس حساب میں
اب تو سرکار بھی کہاں اور بندہ نواز بھی دکھائی نہیں پڑتے۔بیٹری چارج کروانے کیلئے تمام کارخانے مبہم تفریق سے ایک ہی جیسے ہیں۔حلال و حرام کی ڈور اور دانے میں الجھی قوم مداری کے ہاتھوں کھیل رہی ہے۔ کھیل کی چوائس مداری کی ہے۔سانپوں کا زہر بھی اب مداری کی بین میں منتقل ہو چکا ہے۔ مذہب کے نام پر آگ بھڑکانے کے جو لبادہ بنایا گیا ہے اسے فقیر کی گدڑی کا نام دیا جا رہا ہے۔اور ایک دوسرے کو یہ دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کون زیادہ آگ بھڑکا سکتا ہے۔ یہ کارخانے ہر بار نئے مال کا جھانسہ دے کر نیا سلوگن اور نعرہ تیار کر لیتے ہیں لیکن یہ بات جھٹلائی نہیں جا سکتی کہ ہم جعل ساز ہیں اور نقلی انڈوں سے زیادہ کچھ بھی بنانے میں ہمارا دماغ نہیں چلتا۔
مندر مسجد کون کھڑا ہے دل جو پتھر کر دیتا ہے
کس کے کارن کومل پاون پھول تھے جتنے شول ہوئے ہیں