آخر کار برطانوی پارلیمنٹ نے 30دسمبر 2020 کو بریگزٹ کی باضابطہ منظوری دیدی۔ اس طرح آج یکم جنوری 2021 سے برطانیہ یورپی یونین سے باضابطہ طور پر علیحدہ ہو جائیگا۔ یورپی یونین اور برطانیہ کے درمیان برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے حوالے سے کافی اختلافات تھے جو کہ یورپی یونین اور برطانیہ نے رواں ہفتے طے کر لیے تھے۔ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے عالمی میڈیا کے سامنے اعلان کیا کہ یورپی یونین اور برطانیہ میں فری ٹریڈ کامعاہدہ طے پا گیا ہے جس کا حجم تقریباً 668 ارب پاؤنڈز سالانہ ہو گا۔ اس طرح فریقین نے اختلافات کو باہمی ہم آہنگی سے طے کر لیا ہے۔
برطانیہ یورپی کمیونٹی میں یکم جنوری 1973 کو شامل ہوا تھا۔ اس طرح برطانیہ 47 سال ساتھ رہنے کے بعد یکم جنوری 2021 کو یورپی یونین سے علیحدہ ہو جائیگا۔ وقت کے ساتھ یورپ کے دوسرے ملک بھی یورپی یونین میں ممالک شامل ہوتے گئے اور اس وقت 27 ممالک یورپی یونین کے رکن ہیں جن میں برطانیہ شامل نہ ہے ۔ یہ ممالک باہمی تجارت اور مشترکہ کرنسی کے نظام سے بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ان ممالک کے باشندے بغیر سفری اجازت نامہ کے ایک ملک سے دوسرے ملک میں سفر کرتے ہیں اور سکونت اختیار کر سکتے ہیں ۔ ان ممالک کے باشندے بغیر شرائط کے اپنا کاروبار شروع کر سکتے ہیں۔ ان کو یکساں شہری سہولیات حاصل ہوتی ہیں۔ اس نظام نے دنیا کے دیگر ممالک کو بھی مجبو ر کیا ہے کہ وہ بھی ا س طرح کا نظام لائیں یا اس طرح کا متوازی نظام تشکیل دیں جس میں ان ممالک کے شہری بہترین طریقہ سے استفادہ کر رہے ہیں۔ ماضی میں یورپی یونین کے ممالک آپس میں شدید دشمن گردانے جاتے تھے۔ سپین اور پرتگال کی جنگیں تاریخ کا حصہ ہیںجن میں لاکھوں افراد ہلا ک ہوئے ۔ یورپی یونین کے ممالک جرمنی ، فرانس، سپین اور بلجیم جنگ عظیم اول اور جنگ عظیم دوئم میں برسرپیکار رہے ہیں ۔ ان ممالک کی باہمی دشمنیوں سے لاکھوں شہری ہلاک ہوئے اور جنگوں کا طویل سلسلہ چلتا رہا۔ آخر کار 1951ء کے آخر میں بلجیم، مشرقی جرمنی ،فرانس، اٹلی، لکسمبرگ اور ہالینڈ کے سربراہان مملکت نے " معاہدہ پیرس" پر دستخط کیے ۔ اس طرح یورپین کوئل اور سیٹل کمیونٹی کی بنیاد رکھی گئی تاکہ ممالک آپس کے قدرتی وسائل سے استفادہ کر سکیں اور یوں اقتصادی اور تجارتی بنیاد پر جنم لینے والامعاہدہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مضبوط ہوتا گیا اور اس میں ممالک کے درمیان تعاون کو مزید جامع بنایا گیا۔ دیگر یورپی ممالک بھی اس میں شامل ہوتے گئے اور آخر کار یکساں کرنسی یورو کا آغاز کر دیا گیا۔ ان ممالک کے درمیان شہریوں کی نقل و حرکت کیلئے ویزا کی پابندی ختم کر دی گئی ۔ آمد و رفت کیلئے ریل کا نظام تشکیل دیا گیا۔ اسکی افادیت سے برطانیہ متاثر ہوئے نہ رہے سکا اور کنزرویٹو پارٹی سے منتخب وزیر اعظم ایڈورڈ ہیٹھ (Edward Heath) نے 22جنوری 1972 ء کو بلجیم کے شہر "برسلز" میں یورپی کمیونٹی میں شامل ہونے کیلئے معاہدے پر دستخط کر دیے یوں یورپی یونین کی بنیاد کو مضبوط کر دیا گیا۔
گزشتہ 10 سالوں میں یورپی یونین کے شہری کثرت سے برطانیہ میں داخل ہوئے اور سکونت اختیار کی ۔ برطانوی شہری یورپی یونین کے دیگر ممالک کے شہریوں کی وجہ سے پیدا ہونیوالے مسائل سے شدید پریشان تھے اور شدید تنقید کر رہے تھے کہ برطانوی وسائل پر غیر ملکیوں کے قبضہ سے برطانوی شہریوں کو بنیادی سہولیات سے باقاعدہ فائدہ نہ ہو رہا ہے ۔ وقت کے ساتھ تنقید میں اضافہ ہوتا گیا اور کنزرویٹو پارٹی نے برطانیہ کے یورپی یونین سے انخلا کا باقاعدہ مطالبہ شروع کر دیا۔ حالات کو مد نظررکھ کر برطانیہ میں ریفرنڈم کا انعقاد جون 2016 میں کروایا گیا کہ برطانوی شہری یورپی یونین کا حصہ رہنا چاہتے ہیںیا نہیں ۔ اس طرح 52 فیصد شہریوں نے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا جبکہ 48فیصد شہریوں نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ یوں بریگزٹ کی جانب سفر کا آغاز ہوا ۔ بریگزٹ پر کامیاب ریفرنڈم پر یورپی یونین نے بہت تنقید کی اور برطانیہ پر زور دیا گیا کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے فیصلے پر نظر ثانی کرے مگر بریگزٹ کی منظوری کا سفر برطانوی پارلیمنٹ کی جانب کامزن رہا۔ موجودہ وزیر اعظم بورس جانسن نے دسمبر 2019 کے پارلیمنٹ کے انتخابات میں یورپی یونین اور برطانیہ میں از سر نو بریگزٹ کے لیے معاہدہ کی بنیاد پر حصہ لیا اور اکثریت حاصل کی یوں برطانوی وزیر اعظم کیلئے انتہائی ضروری تھاکہ یورپی یونین او ربرطانیہ میں مؤثر اور جامع معاہدہ تشکیل دیا جائے اور اختلافات کو ختم کرکے تجارتی و اقتصادی شراکت داری میں شمولیت اختیار کی جائے۔
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے اپنی کامیابی کااعلان کیا کہ یورپی یونین اور برطانیہ میں ایک آزاد تجارتی معاہدہ ہو گیا ہے۔ جس کا سالانہ حجم 668 ارب ہے جو کہ برطانوی معیشت کیلئے ایک انتہائی خوش آئند خبر ہے۔ برطانوی ماہی گیری کے شعبہ میں ترقی کے مزید مواقع میسر آئینگے اور یوں نصف سے دو تہائی ترقی کاموقع میسر آئیگا۔ برطانیہ میں اگرچہ پہلے سے علیحدہ کرنسی پاؤنڈ کا نفاذ تھا مگر یورپی بنکاری نظام میں یورو کو خصوصی حیثیت حاصل تھی جو کہ اب ختم ہو گئی ہے۔اس معاہدے کی رو سے برطانیہ نے اپنی سرحد ، کرنسی ، قوانین ، تجارت اور پانی کا کنٹرول واپس حاصل کر لیا ہے۔ یکم جنوری2021ء کو یورپی یونین کے شہری بغیر اجازت نامہ برطانیہ کا سفر نہ کر سکیں گے اور یورپی یونین کے شہریوں کو دیگر سہولیات سے بھی استفادہ نہ ہو گا۔
ایک اندازے کے مطابق تقریباً 12 لاکھ سے زائد پاکستانی برطانیہ میں مقیم ہیں اور برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی سے پاکستانی پیشہ وارانہ صلاحیت کے حامل افراد کو روزگار کے مواقع میسر آئینگے۔ برطانیہ میں لاکھوں ایشیائی ممالک کے شہری یورپی یونین کے سخت قانون کی وجہ سے برطانیہ میں اپنے رشتے داروں کو دعوت دینے سے قاصر تھے۔ برطانیہ میں امیگریشن قوانین میں تبدیلی کا آغاز ہو چکا ہے اور امیگریشن قوانین میں تبدیلیوں کے تحت یورپی یونین اور ایشیائی ممالک کے شہری یکساں کاروبار اور روزگار کے مواقع سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔پاکستانی طالبعلموں کو بھی برطانوی امیگریشن قوانین کی تبدیلی سے فائدہ حاصل ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے برطانوی قوانین میںتبدیلی سے پاکستانی کاروباری افراد اور طالبعلموں کو آگاہی دینے کیلئے سیمینار اور میڈیا پر تشہیر کی جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ سے پاکستانی ماہرین پیشہ وارانہ نوکریوں کا انتخاب کر سکیں اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کاسبب بنیں۔