نیا سال یا نیا ہندسہ

بہت سے دوستوں کے چہرے اس تصویر اور تصور کی آس پر کھلے ہوئے ہیں کہ نیا سال برکتوں کا سال ہو گا کیونکہ وہ جمعہ کے مبارک دن سے شروع ہو رہا ہے۔لہذا ان کے تمام دلدردور ہو جائیں گے ۔ جانے والا سال تو کثیر اموات ، شدید بیماریوں اور شدید دبائو کا سال تھا۔ کرونا نے جہاں معیشت پر منفی اثرات چھوڑے وہاں بہت سے پاکستانیوں کے سپنے اور اپنے بھی ساتھ لے گیا۔ سیاسی افق، بے چینی اور ایک دوسرے کی تضحیک و تذلیل سے سر گرم رہا۔ مہنگائی اور مختلف اشیائے ضروریہ کی کمیابی کے سکینڈل نے عوام کو دھونی دئے رکھی۔ اب دوستوں کو اس سال کا کنارہ نظر آرہا ہے تو بہتری کی آس لئے اچھے دنوں کے خواب دیکھنے لگے ہیں۔اللہ کرے ان سب کی آس پھلے اور وہ خوشیوں اور آسائشوں میں جئیں۔ مگر ایک خلش سی رہتی ہے کہ ہم نے بطور قوم گزشتہ سالوں سے مختلف تو کچھ کیا نہیں۔ ہمارا اجتماعی کردار اور عمل تو زوال کی طرف نشاندہی کر رہا ہے۔ تو پھر ایک ہندسہ تبدیل ہونے سے دودھ اور شہد کی نہروں کی امیدیں کس بنیاد پر لگائی جا رہی ہیں۔ جس سال سے ہمیں شکوہ ہے کہ اس نے بہت دکھ دئے ہیں۔ اس سال میں سڑکوں پر مائیں، درسگاہوں میں بیٹیاں، گلیوں میں بچیاں اور انصاف میں قانون محفوظ نہیں رہے۔ 2020پنجاب میں خواتین پر تشدد کے حوالے سے پریشان کن رہا۔ صوبہ بھر میں گھریلو تشدد کے 26530، غیرت کے نام پر قتل197، زیادتی 3264، اجتمائی زیادتی کے 181واقعات رپورٹ ہوئے۔ سادہ لوح، بھولے اور کم عقل پاکستانی چالاک اور شاطر سیاستدانوں اور مذہبی رہنمائوں کی کھیتیاں بن کر پھلتے پھولتے رہے۔ ان رہنمائوں کی تقلید میں عام پاکستانی بھی دوسروں کے دلوں میں دھڑکنا بھول کر آنکھوں میں کھٹکنے کے لئے بے چین ہو تے رہے۔ احترام اور محبت کو حرام اور نفرت ، حسد اور بغض کو حلال سمجھتے رہے ہیں۔ مذہب ، نظریات ، نفرت اور محبت کو کاروبار کی صورت میں استعمال کیا جاتا رہا ۔ مہنگائی ، چور بازاری، ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری بطور حق ہوتی رہی ہے۔ اقدار، اخلاقیات اور سماجیات کے حوالے سے مثبت ذہن سازی کرنے میں خاندان، گلی محلہ، تعلیمی ادارے، ممبر و محراب سے لے کر استاد، دانشور، پیر فقیر مجرمانہ حد تک غفلت کے مرتکب رہے ہیں۔ تعمیر کی بجائے تخریب اور مصالحت کی بجائے ٹکرائو ترجیح بن گئی ہے۔ ہماری ذہنی زمین اس طرح کی زرخیز بنا دی گئی ہے کہ نفرت ، تعصب، حسد، بغض کی فصل تیار ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ ترقی اور جدت کے شوق میں ہم ڈھلوان کے مسافر بن گئے ہیں۔ جس کی منزل تاریکی اور خام خیالی کے سوا کچھ نظر نہیں آتی۔ہمارے دل تنگ ہیں۔ تنگ دل میں نہ بندے رہتے ہیں نہ اللہ۔دوسروں کو گھٹیا اور کم تر ثابت کرنے کے در پے ہیں۔ دوسروں کو بے عزت کر کے اپنے لئے عزت و احترام کے طلبگار ہیں۔ خود اجلا بن کر دوسروں کو میلا کچیلا اور خود نو گزا بن کر دوسروں کو بونا ثابت کرتے ہیں۔ آزادی کی آڑ میں ہم بے لگام ہو گئے ہیں۔ ہم میں طلب علم ہے اور نہ تحقیق کا شوق۔بے محا بہ آزادی کے جنون میں بندروں کی عظمت اور حرمت کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ جبہ ودستار، گیسو اور داڑھی بری طرح تنقید اور تحقیرکی زد میں ہیں۔ہمارے اناجتماعی رویوں کا تسلسل ابھی بھی شدو مد سے جاری و ساری ہے۔ ہم ایک کریش سوسائٹی کی طرف بگولے کی طرح رواں ہیں۔ اجتماعی طور پر ہم من کے کھوٹے ہو چکے ہیں۔ ایسے میں تو دعا ، عطاء اور محبت تینوں راستہ بدل لیتی ہیں۔ ہم نے اپنے اجتماعی رویوں اور عمل سے اپنی دنیا کو جہنم بنا دیا ہے۔ محض ایک ہندسہ تبدیل ہونے سے اچھے اور روشن مستقبل کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ہمارے ہاں پڑھے لکھے ، باشعور اور اہل منصب بھی حق اور سچ کی بجائے بت پرستی کو دانشمندی سمجھتے ہیں۔ طاقت کو بت کی طرح لائق پرستش سمجھا جاتا ہے وہ طاقت رستم کی شکل میں ہو یا ایٹم کی صورت میں ، دھونس اور دھاندلی کی ہو یا دولت کی، مطلب کی ہو یا شر کی،اپنی پوجا کروانے پر بضد ہے اور پجاری شوق اور فخر سے یہ عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمارا ایمان اور عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ڈرنے والوں ،احسان کرنے والوں، صبر کرنے والوں ، کوشش کرنے والوںاور توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ ہم میں تو تقویٰ نام کی کوئی چیز نہیں۔ ہم بے صبرے، کم حوصلہ، کم ہمت ہیں۔ اپنے اعمال کو کھنگالیں تو فتور اور گناہوں سے آلودہ ہیں۔ توبہ کرنے کی بجائے ہم اڑی اورضد کرتے ہیں۔ چھوٹی سی مصلحت اور ضرورت کے لئے ہم اپنی سب سے قیمتی اور اہم چیز انااور انسانیت کا سودا کر دیتے ہیں۔ تو ایسے میں اللہ تعالیٰ سے دوستی اور محبت کا دعویٰ کیسے ممکن ہے۔
ترو تازہ اور مہذب معاشروں میں لوگ ایک دوسرے کے ساتھی بن کر جینا سیکھتے ہیں۔ ایک دوسرے کی کمزوریوں ، کجیوں ، کوتاہیوں ، پسندیدہ اور ناپسندیدہ عمل اور ایک دوسرے کے وہموں کو برداشت کرنا سیکھتے ہیں۔ رواداری اور ایک دوسرے کو خوش رکھنا سیکھتے ہیں۔ ایثار اور قربانی کا عملی مظاہرہ کرتے ہیں۔ اپنی شخصیت کے نوکیلے اور چبھتے کونوں کو گول کرنا سیکھتے ہیں۔ علم اور عقل کو بوقت ضرورت استعمال کرتے ہیںخود پر طاری نہیں کرتے۔ اپنے مثبت رویوں سے عزت و احترام کی ایسی فضا پیدا کرتے ہیںجس میں پریشانیاں، افرا تفری اور ٹینشن اس طرح ٹوٹ کر بکھر جاتی ہیں جس طرح درخت کی شاخ ہلانے سے خزاں رسیدہ پتے جھڑتے ہیں۔ ایسا ماحول مثبت ذہن سازی اور بے لوث خدمت، ایثار اور قربانی کا مرہون منت ہے۔ اسی صورت میں نئے سال سے توقعات والبستہ کی جا سکتی ہیں۔کاش ایسا ممکن ہو جائے کہ سائنس مہلک ایٹمی ہتھیار بنانے کی بجائے نفرت، تعصب، کینہ، حسد اور بغض کو ہمارے خون سے کشیدکر کے باہر نکال دے ۔ گولہ بارود بنانے کی بجائے انسان کے اندر جھانک کر انسانی فطرت کو سمجھنے کی سعی کرے ۔ انسان کے اندر ہی اندر جو زلزلے آتے ہیں، کدورتوں اور نفرتوں کے طوفان اٹھتے ہیںاور انسان کی روح میں ہلچل مچاتے ہیںان کا کوئی سد باب کرے اور انسان دوسروں کا برا سوچنا بند کر دے تا کہ ہماری اجتماعی، معاشی، سماجی، فکری اور اخلاقی راہ ایک ہو جائے اور ایک نئی بصیرت اور نئی روشنی کے احساس سے نئی زندگی تخلیق کی جا سکے۔ جس میں انسان ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہوں اور وہاں مقبول دعائیں اپنا رنگ دکھائیں، پھر معجزے ہوں ، تقدیریں بدلیں، سوچیں بدلیں، دن بدلیں، رحمتوں اور برکتوں کے انداز بدلیں۔ ایک شخص مطالعہ میں مصروف تھا اور پاس ہی بیٹھا اس کا بچہ کھیل رہا تھا ۔ وہ شور غل کر کے بار بار اسے ڈسٹرب کر رہا تھا۔ اس شخص نے میز سے اخبار کا ایک ورک اٹھایا جس پر دنیا کا نقشہ بنا ہوا تھا۔ اسے پرزے پرزے کر کے بچے کے حوالے کر دیا اور کہا کہ لو بیٹا اسے برابر واالے کمرے میں لے جائو اور نقشہ کو پھر سے جوڑ لائو۔ جب بچہ چلا گیا تو باپ نے اطمینان کا سانس لیا اور دل میں کہا کہ چلئے تین چار گھنٹوں کے لئے تو سر درد ختم ہوا۔ لیکن اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب بچہ 15منٹ بعد دوڑتا ہوا آیا اور فخر سے کہا ابو نقشہ ٹھیک ہو گیا ہے۔ باپ نے نقشہ پر نگاہ ڈالی تو پہاڑوں کے سلسلے ، دریائی گزر گاہیں، شہروں کے محل وقوع ، پل اور سڑکیں اپنے اپنے مقام پر درست پائے۔ پوچھنے لگا کہ بیٹا تو نے یہ کیا کرشمہ کر دکھیایا؟ بیٹے نے جواب دیا ، ابو یہ بڑا آسان تھا۔ اس نقشہ کی دوسری جانب اتنی ہی بڑی ایک انسانی تصویر تھی۔ میں نے اس انسانی تصویر کو پھر جوڑ دیا۔ دنیا کا نقشہ آپ سے آپ درست ہو گیا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ دنیا کے نقشے کو درست کرنے کی بجائے اس پر بسنے والے شکستہ دل ، مایوس اور بکھرے انسانوں کو آپس میں صحیح طریقہ سے جوڑ دیا جائے۔ شہر ، گائوں، پل، دریا، پہاڑ خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے اور 2021رحمتوں ، برکتوں اور سودگیوں کا سال ہو گا۔ 

ای پیپر دی نیشن