فٹ یا سوکر دنیا کے مقبول ترین کھیلوں میں سے ایک ہے جس کا ہمارے ملک میں یہ عالم ہے کہ فیفا کے 211ممبران کی فہرست میں پاکستان کا 198واں نمبر ہے اورپاکستان فٹبال کو فیفا پابندیوں کا سامنا ہے۔ گزشتہ دنوں ملک بھر میں احتجاج کے دوران وزیر اعظم سے اپیل کی گئی کہ پاکستان فٹ بال پر عائد پابندیوں کے خاتمہ کے لئے کردار ادا کریں۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان فٹبال پر پابندی کیونکر لگی۔ ایسے کیا محرکات ہیں جس کے باعث فیفا سخت اقدامات کرنے پر مجبور ہوا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ارض وطن میںفٹبال کھیلنے والے کھلاڑیوں کی تعداد 60 لاکھ تک پہنچ چکی ہے جن میں باضابطہ اور شوقیہ فٹبالرز شامل ہیں تجزیہ کاروں کے مطابق یہ اضافہ بھی فٹبال کی حقیقی 'فین بیس' سے کہیں کم ہے یعنی اگر فٹ بال کے کھیل کو فروغ کا صحیح موقعہ ملے تو یہ کرکٹ کے مساوی مقبولیت حاصل کر سکتا ہے۔
2015 سے جاری سیاسی کشمکش اور فٹ بال میں موجود سیا سی دھڑوں کی آپس کی چپقلش نے پاکستان میں اس کھیل کو بے انتہا نقصان پہنچایا ہے، گزشتہ 6 سال میں پاکستان دو مرتبہ عالمی پابندیوں کا شکار ہو کر معطل ہوا ہے۔ 2015 میں عدالتی حکم پر پی ایف ایف کے معاملات چلانے کیلئے ایک ریٹائیرڈ جج کو ایڈمنسٹریٹر مقرر کرتے ہوئے فیفا ہائوس کا کنٹرول انہیں دے دیا گیا، فیفا نے اسے تیسرے فریق کیجانب سے مداخلت گردانا اوراپنی تسلیم شدہ باڈی کی حمائیت جاری رکھی، حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ فیفا نے 2017 میں پاکستان کی رکنیت معطل کرتے ہوئے ملک کو سالانہ گرانٹ کے علاوہ تمام حقوق سے یکسر محروم کر دیا، 2018 میں پاکستان کی رکنیت اس وقت بحال کر دی گئی جب پی ایف ایف کا کنٹرول فیفا کی تسلیم شدہ باڈی کو واپس مل گیا جس کے ساتھ ہی ملک بھر میں فٹ بال کی ایکٹیویٹی اپنے تاریخی عروج کو چھونے لگی مگر 2018 کے اواخر میں اعلیٰ عدلیہ کے حکم پر دوبارہ ہونے والے انتخابات نے ایک نیا تنازعہ کھڑا کر دیا، ان انتخابات میں سید ظاہر شاہ و عامر ڈوگرگروپ کے سید اشفاق حسین شاہ پی ایف ایف کے صدر منتخب ہوئے، مخدوم فیصل صالح حیات گروپ نے ان انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا۔
فیفا نے 2019 میں پاکستان کا فٹ بال بحران حل کرنے کے لئے تمام سیاسی سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے فیفا اور ایشئین فٹ بال کنفیڈریشن کی جانب سے ایک 'نارملائیزیشن کمیٹی بنائی گئی، سید اشفاق شاہ نے برضا و رغبت فیفا کی عالمی اتھارٹی کو تسلیم کرتے ہوئے پی ایف ایف بشمول ھیڈ کوارٹرزکا مکمل کنٹرول فیفا کی جانب سے نامزد کی گئی پی ایف ایف نارملائیزیشن کمیٹی کے حوالے کر دیا، بدقسمتی سے تمام فٹ بال گروپوں کے نمائیندوں پر مشتمل یہ کمیٹی پندرہ ماہ براجمان رہنے کے باوجود بری طرح ناکام ہوئی جس کی وجہ اس کے ممبران کی آپس میں شدید کھینچا تانی تھی، فیفا نے پاکستان کو ایک اور موقعہ دیتے ہوئے نارملائیزیشن کمیٹی کو نئے سرے سے ترتیب دیتے ہوئے جنوری 2021 میں ہارون ملک کی سربراہی میں مکمل غیر جاندار اراکین پر مشتمل کمیٹی کا اعلان کیا اور معاملات کی باگ ڈور ان کے سپرد کر دی گئی۔ بدقسمتی سے اس کمیٹی کے قیام کے دو ماہ بعد ہی 20 جون 2015 میں فٹ بال ہائوس پر ہونے والے قبضے کی تاریخ کو دہرا دیا گیا اور ایک مرتبہ پھر اشفاق حسین و حکومتی ایم این اے ملک عامر ڈوگر گروپ کی طرف سے فٹ بال ہائوس پر قبضہ کرتے ہوئے فیفا کیجانب سے ترتیب دی گئی پی ایف ایف نارملائیزیشن کمیٹی کو وہاں سے بیدخل کر دیا گیا، ناقدین فٹ بال کہتے ہیں کہ اس کمیٹی کی غیر جانبداری اور شفاف الیکشنز کے انعقاد کی جانب اٹھائے جانے والے عملی اقدامات اور کسی سیاسی دبائو میں نہ آنے کا تائثر اس قبضے کی وجہ بنا ہے، فیفا نے اس واقعہ پر سخت اور متوقع ردعمل دیتے ہوئے فوری طور پر پاکستان کی بین الاقوامی رکنیت ایک مرتبہ پھر معطل کرتے ہوئے رکنیت کی بحالی کے لئے فٹبال ھیڈ کوارٹرز اور پی ایف ایف کا کنٹرول غیر مشروط طور پر نارملائیزیشن کمیٹی کو واپس کرنے کی ہدایات دے رکھی ہیں، یاد رہے کہ تین سال میں دو مرتبہ معطل ہونے والا پاکستان دنیا کا واحد ملک بنا ہے جس کی وجہ سے دنیا بھر میں فٹ بال کے کڑوڑوں اربوں شائقین میں وطن عزیز کی بدنامی ہو رہی ہے جبکہ ہمارے روائیتی حریف بھارت نے اس معطلی کو خوب اچھالا۔ فیفا نے پاکستان کی رکنیت کی بحالی کیلئے فیفا ہائوس لاہور کو واپس فیفا کی نارملائیزیشن کمیٹی کے حوالے کرنے کی واضح ہدایات دے رکھی ہیں۔ متعلقہ حکومتی وزیر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے فٹبال ہائوس پر قبضہ کی مزمت کرتے ہوئے اپنا فوری ردعمل دیا اور حکومتی سطح پر اس سے لا تعلقی کا اظہار کیا، ساتھ ہی انہوں نے اس مسلئہ کے حل کیلئے کوششیں شروع کر دیں۔ بعد ازاں وزیراعظم نے بھی معاملے کو سنجیدگی سے دیکھا اور اس کے حل کی ہدایات دیں۔
چند روزپہلے وزیر اعظم کے قریبی ساتھی اور وفاقی وزیر اسد عمر کی فیفا نارملائیزیشن کمیٹی کے چئیرمین ہارون ملک و دیگر کمیٹی اراکین شاہد نیاز کھوکھر، بیرسٹر حارث عظمت اور سعود ہاشمی سے اسلام آباد میں ملاقات اسی سلسلہ کی کڑی ہے جبکہ ذرائع کے مطابق اس ملاقات میں فیفا کمیٹی کو فیفا ہا ئوس لاہور کی واپسی کی یقین دہانی کروا دی گئی ہے، قبل ازیں صدر پاکستان عارف علوی بھی کمیٹی کے اراکین سے پریزیڈینسی، اسلام آباد میں ملاقات کر چکے ہیں، ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس اہم قومی مسئلہ کے حل کے لئے کھیلوں کی وفاقی وزیر و زیر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے کلیدی کردار ادا کیا ہے، اس سلسلہ میں وہ خود بھی نارملائیزیشن کمیٹی سے مسلسل رابطہ میں رہی ہیں اور کمیٹی اراکین سے متعدد ملاقاتیں کر چکی ہیں، ڈی جی پاکستان سپورٹس بورڈ و
وفاقی سیکریٹریز و دیگر سینئیر افسران نے بھی فٹبال میں پاکستان کی عالمی تنہائی و بدنامی کو ختم کرنے کیلئے مثبت کردار ادا کیا ہے، میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹس کے مطابق ایک ملاقات میں وفاقی وزیر اسد عمر کیجانب سے فیفا ہائوس کا کنٹرول نارملائیزیشن کمیٹی کو واپس کرنے پر حتمی پیش رفت کے علاوہ نارملائیزیشن کمیٹی سے پی ایف ایف کے آئین کے مطابق شفاف اور منصفانہ انتخابات کی یقین دہانی اور تحریری روڈ میپ مانگا گیا تھا جو کہ مہیا کر دیا گیا ہے۔ فٹبال حلقوں نے صدر و وزیر اعظم پاکستان کی توجہ، ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کی انتھک کاوشوں اور اسد عمر کی اعانت کو سراہتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ فٹ بال بحران جس کی وجہ سے نہ صرف لاکھوں کھلاڑی متائثر ہو رہے ہیں بلکہ وطن عزیز کو عالمی تنہائی و شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے بہت جلد حل ہونے والا ہے۔