اسلام آباد(عترت جعفری)2022ء معیشت کے حوالے سے پرخطر سال رہا ،ملک کے شہریوں کو پورے سال کے دوران سیاسی اتھل پتھل،بے چینی ،سیلاب نے معاشی طور پر زیر بار کیا رکھا ،بد ترین مہنگائی سے غریبوں کی تعدا بڑھی ،اور اب ایف بی ار کے ریونیو کے بھاری شارٹ فال کے باعث ایک بار پھر نئی ٹیکسیشن گھنٹی بج گئی ہے ،آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ اصول کے مطابق ریونیو شارٹ فال کی صورت میں حکومت مزید ٹیکس اقدامات کی پابند ہے جس کے تحت ٹیکسوں میں مذید مراعات کو ختم کرنا اور نئے ریونیو اقدامات شامل ہیں ، گذشتہ سال کے دوران پاکستانی روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر نے نئے ریکارڈ قائم کئے بلکہ مہنگائی،اسٹیٹ بینک کی شرح سود میں اضافے کے لحاظ سے بھی یہ سال پچھلے10 سالوں میں سب سے مہنگا سال ثابت ہوا۔ مہنگائی کی شرح 30فیصدرہی جب کہ پچھلے 10سال میں سالانہ مہنگائی کی شرح 10فیصد تک بھی کبھی نہیں پہنچی۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے بھی اس سال شرح سود میں 6.26 فیصد اضافہ کیا گیا اس سے پہلے 2019 میں شرح سود میں 10 فیصد کا سب سے زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا۔غیر ملکی سرمایہ کاری کا حجم بھی پچھلے 10سال میں سب سے کم رہا جب کہ مجموعی طور پر سال بھر میں 50 ہزار ارب روپے سے زائد قرضے لئے گئے جو پچھلے 10میں کسی بھی سال میں سب سے زیادہ لئے گئے قرضے ہیں، بجٹ خسارہ بھی بڑھا جو 10سال کا سب سے زیادہ بجٹ خسارہ ہے۔کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی 11.4 ارب ڈالر رہا ،سیلاب کی وجہ سے ملک کو30ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا ،حکومت نے بجٹ میں جو ٹیکس اقدامات اٹھائے تھے ان مین سپر ٹیکس سمیت مختلف اقدامات کو عدلیہ مین چیلنج کیا گیا ،ایف بی آر بھی تسلیم کرتا ہے کہ اس کی وجہ سے 250ارب روپے کا ریونیو پھنس گیا ہے ،سال کو دوران انرجی کی لاگت مین تسلسل سے اضافہ ہوا ،تیل اور ڈیزل کے نرخ گیر معمالی طور پر بڑھائے گئے،جن مین ان گذتہ ڈیڑھ ماہ سے کمی کی جا رہی ہے تاہم آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کی وجہ تیل کی قیمت مین کمی کا پورا فائدہ صارفین کو نہیںدیا جا سکا ۔
بد ترین مہنگائی
2022معیشت کے حوالے سے پرخطر رہا ،بد ترین مہنگائی سے غریبوں کی تعداد بڑھی
Jan 01, 2023