چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر کی زیرصدارت کور کمانڈر کانفرنس میں پاکستانی عوام کی امنگوں کے مطابق دہشتگردوں کے خلاف بلاتفریق کارروائی اور اس لعنت کو ختم کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔فوج کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے دہشت گردی کیخلاف بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے سیزفائر کے خاتمے کے اعلان کے بعد پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں خطرناک اضافہ ہوا ہے۔نظریاتی اعتبار سے افغان طالبان اور پاکستان میں موجود طالبان ایک جیسے نظریات رکھتے ہیں اورپاکستانی طالبان افغان طالبان کے امیرالمومنین کو اپنا امیرالمومنین مانتے ہیں۔ افغانستان میں امریکہ،نیٹو واتحادی افواج کی شکست وانخلا اور کابل میں افغان طالبان کے آنے سے ٹی ٹی پی کوتقویت ملی تھی۔افغان طالبان کی ثالثی میں پاکستان حکومت نے ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات شروع کیے اورتاثر دیا گیا کہ مذاکرات کامیاب ہو رہے ہیں لیکن دوحہ معاہدے کو حتمی شکل دینے پر رائے منقسم رہی، پاکستان چاہتا تھا کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کیجانب ضمانت دیں کہ وہ پاکستان میں کاروائیاں نہیں کرےگی۔ رواں برس کالعدم ٹی ٹی پی کیجانب سے جنگ بندی اعلان کے بعد ملک میں سکیورٹی کی صورتحال میں بہتری کا کریڈٹ تو سب لیتے دکھائی دیے لیکن جنگ بندی کے خاتمے کے بعد جس تیزی سے حالات بگڑے ہیں، اسکی ذمہ داری وفاقی وصوبائی حکومتیں ایک دوسرے پر ڈال رہی ہیں۔ کالعدم ٹی ٹی پی کیطرف سے جنگ بندی کے خاتمے کے بعد تاحال 60 سے زیادہ حملے کیے گئے،جن میں 70 سے زیادہ افراد شہیدہوئے ہیں، بیشتر پولیس اورسکیورٹی اہلکار تھے۔ پاک افغان بارڈر جھڑپیں، خیبر پختونخوا، بلوچستان اوراسلام آباد میں حملوں اورخودکش دھماکے کے بعد خوف بڑھ گیا ہے۔ ایک طرف وفاق وصوبائی حکومت میں بیانیے کا ٹکراو¿ ہے تو دوسری طرف ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے حوالے سے ابہام موجود ہے۔قومی سطح پر قائم انسداد دہشت گردی اتھارٹی کے جانب سے 8 دسمبر کو سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی رپورٹ کےمطابق مذاکرات کے دوران کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی کو پھیلنے کا موقع ملا،اس نے پاکستان کے مختلف علاقوں میں مضبوط قدم جمائے اور افغانستان میں اپنی بنیادیں بھی قائم رکھیں، جس کے بعد حملوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ ٹی ٹی پی افغانستان میں طالبان کی فتح کے بعدافغانستان منتقل و فعال ہوگئے۔امریکی انخلا کے بعد ٹی ٹی پی کے وسائل میں بہت اضافہ ہوااورامریکہ کے چھوڑے ہوئے جدید ترین ہتھیاربھی انکے بھی ہاتھ لگ گئے جس سے انکی مزاحمت تیزہوگئی ہے۔ ٹی ٹی پی جوکئی دھڑوں میں تقسیم تھی، مفتی نور ولی کے امیر بن جانے کے بعدتمام دھڑے متحد ہو چکے ہیں، ہماری غلط فہمی تھی کہ ٹی ٹی پی کو سابقہ حکومتوں کی پشت پناہی حاصل ہے، درحقیقت افغانستان ہمیشہ سے ہی ان کیلئے محفوظ پناہ گاہ رہی ہے۔ یہ وجہ ہے کہ جب چار ہزار کے قریب ٹی ٹی پی کے کارکن اوراہم رہنماوں کو جب افغان طالبان نے وہاں کی جیلیں توڑ کررہا کیا تو وہ دوبارہ ٹی ٹی پی کی صفوں میں شامل ہوکرمنظم وفعال ہوگئے۔ بظاھرٹی ٹی پی سابقہ فاٹاواندورن ملک اپنے زیراثر علاقے کنٹرول میں لینا چاہتی ہے، بالخصوص وزیرستان، قبائلی اضلاع اورسوات میں انکی موجودگی لمحہ فکریہ ہے۔جہاں وہ بڑی تعداد میں منتقل ہوگئے اور آسانی و آزادی کیساتھ منصوبہ بندی کرسکتے ہیں۔اسطرح پاکستان کے مختلف علاقوں میں ٹی ٹی پی کے کارکن وسلیپر سیلز جو قیادت کے ساتھ رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے خاموش بیٹھے تھے، دوسری طرف یہ ایشوسابقہ وموجودہ وفاقی حکومتوں کی ترجیحات میں کبھی شامل نہ رہا ہے۔
پاکستان کے سٹریٹیجک مفادات چین کے ساتھ بہت قریب ہیں، اسلئے کچھ قوتیں ان کو نقصان پہنچانا چاہتی ہیں۔افغان سالمیت کا احترام اہم ہے لیکن افغان سرزمین پاکستان مخالف سرگرمیوں میں مسلسل استعمال ہو رہی ہے۔اقوام متحدہ سکیورٹی کونسل کیمطابق افغانستان میں پاکستانی طالبان 10000کے قریب ہیں جو ا±نکے سلیپرسیلز وحامیوں کے علاوہ ہیں جبکہ شمالی وزیرستان میں گزشتہ برس آپریشن دواتوئی کیا گیا، جسکے نتیجے میں 7 سو مربع کلومیٹر کے علاقے پر ریاست کی رِٹ بحال کر دی گئی اور اب وہاں اقتصادی کام ہو رہا ہے۔پاک فوج ایک جانب دہشتگردی کا مقابلہ کر رہی ہے تو دوسری طرف مخصوص بیانیہ و ایجنڈا کی فِفتھ جنریشن وار فیئر کابھی سامنا ہے۔قوم اورافواج نے پاکستان مخالف بیانیے کوشکست دی ہے، ٹیرراِزم سے ٹوراِزم تک کا سفر انتہائی کٹھن رہا،تین سالوں میں پاکستان میں امن کی واپسی ہوئی جسے بین الاقوامی طور پر بھی تسلیم کیا گیا۔ پاکستان کے پاس آپشنز محدود ہیں‘ لہٰذا ٹی ٹی پی کے ساتھ براہ راست مذاکرات نہیں کرنے چاہئیں اور افغان طالبان کو اپنی جانب سے گارنٹی پیش کرنی چاہیے۔ہمیں ایسے انتقامی اقدامات سے بھی دور رہنا چاہیے جن سے افغانستان کے عوام کو نقصان پہنچے، اس طرح پاکستان کو افغانستان کے اندر ٹی ٹی پی کو نشانہ نہیں بنانا چاہیے کیونکہ ایسے کسی اقدام کا نتیجہ عام لوگوں کی ہلاکتوں کی صورت میں سامنے آسکتا ہے جس سے صورتحال مزید پیچیدہ ہوجائےگی۔ ایسے میں ٹی ٹی پی بارے واضح حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی وسیاسی قیادتیں آگے آکر مسئلہ کے حل اورسکیورٹی اداروں کےساتھ ملکر اپنا حکومتی، سفارتی و سیاسی کرداروفرض ادا کرکے وطن عزیز کو مضبوط بنائیں۔