کبھی ٹوٹ کے بکھرا نہیں کرتے ! 


آج جب میں یہ کالم سپرد قرطاس کر رہی ہوں تو میرے سامنے 2022 کا سورج ڈوب رہا ہے ۔چند ہی گھنٹو ں بعد جب آپ یہ کالم پڑھیں گے تو 2023 کا سورج طلوع ہوچکا ہوگا،اک نئی امید ،نئی زندگی اور نئی امنگ کے ساتھ ۔رات اور دن کا پھیر زندگی کے غم و خوشی کو ظاہر کرتا ہے اور سپیدئہ سحر کا نمودار ہونا ایک نئی زندگی کے ظہور کا اعلامیہ ہے جو کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے واضح پیغام ہے کہ ہر سنگین رات کا اختتام ایک روشن صبح پر ہوتا ہے اسلئے پرامید رہنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو پر امید لوگ بہت پسند ہیں ۔ بحیثیت مسلمان ہمارا اعتقاد بھی ہے کہ حکم خداوندی کے بغیر ایک پتا بھی نہیں ہل سکتا ۔یہ یقین کم و بیش تمام مذاہب میں موجود ہے کہ اس کائناتی نظام کو چلانے والا کوئی نہ کوئی ہے جس کے قبضہ قدرت میں ہر شے ہے اور اس کا یقین آسمانی تعلیمات سے حق الیقین کے درجے تک پہنچ جاتا ہے مگر آج ہماری آس کا دیا یاس کی آندھیوں میں تھر تھرا رہا ہے؟ چونکہ ہم نے مقصدحیات فراموش کر تے ہوئے ،ڈیجیٹل لائف اپنا کر وقت کی قدر چھوڑ دی ہے جو کسی کےلئے نہیں ٹھہرتا ۔دیکھ لیجیے کہ کل سے نیا سال بھی رواں سال کہلائے گا ۔ دراصل زندگی لاعلمی اور علم کے بیچ کا وہ مختصردورانیہ ہے جسے ناپتے کاٹتے وقت نکل جاتا ہے اور جب دنیاوی فرائض سے فراغت ملتی ہے تو رنگِ جہاں ہی بدل چکا ہوتا ہے۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو لاعلمی میں روتا ہے اور جب دنیا سے جاتا ہے تو خوف سے روتا ہے کہ اسے علم تھا مگر جھٹلاتا رہا جبکہ زندگی تو سراب تھی جو اپنی تمام تر رعنائیوں اور دلکشیوں میں بے پناہ کشش رکھنے کے باوجود اسے کبھی حقیقی سکون نہ دے سکی وہ مال و متاع جس کے حصول کی تگ و دو میں اس نے اپنوں کو بھلا دیا او ر اللہ کی زمین پر اکڑ کر چلتا رہاوہ کسی کام نہ آیا بالآخر موت کے بے رحم پنجے نے دبوچ لیا۔یعنی جب انسان زندگی کی ماہیت اور حقیقت سے آگاہ ہوتا ہے کہ مظاہر فطرت کی تہہ داریوں تک رسائی ہونے لگتی ہے اور سنبھلنے لگتا ہے تو زندگی لڑکھڑانے لگتی ہے ۔بدیں وجہ زندگی کی حتمی تعریف نا ممکن ہے ،اسکی حقیقت ہر کسی پر نہیں کھلتی، تار عنکبوت کی طرح الجھی ہوئی ہے جسے سلجھانے کی جستجو کرنے والا بھی یہی کہتا دکھائی دیتا ہے کہ : ”تھا فسوں وہ بھی جسے زود ِ فسوں سمجھا تھا میں “درحقیقت زندگی کی بے ثباتی اور موت کی اٹل حقیقت سے آگاہ رہنا ہی زندگی ہے جبکہ ہر شخص اسے اپنے ہی نکتہ نظر سے دیکھتا اور تجربات کی روشنی میں پرکھتا ہے حالانکہ صرف اسلام ہی ایسا دین ہے جو زندگی کے ہر پہلو میں مدد کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :کہہ دیجئے ! ”کہ جس موت سے تم بھاگتے پھرتے ہو وہ تو تمہیں آکر رہے گی ۔وائے ناکامی !ہم دنیاوی زندگی کو کامیاب بنانے میں اس قدر مشغول ہیں کہ آخرت ہی بھلابیٹھے ہیں !ناقابل تردید حقیقتوں میں سے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر انسان پررازِ حیات افشا ہو جائے تو وہ اپنی حیات رضائے خداوندی میں وقف کر دے، جیسا کہ علامہ ا قبال نے کہا تھا : 
اپنے من میں ڈُوب کر پاجا سراغ زندگی 
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن 
یہی تو مسئلہ ہے کہ انسان پور ی زندگی مخمصے میں گزار دیتا ہے کیونکہ وہ ان کتابوں کو پڑھتا اورایسے علماءکو سنتا ہے جوکہ خود فرقہ واریت میں غرق ہیں جبکہ کامیاب زندگی کا حقیقی راز تو قرآن کریم و سنت نبوی میں پوشیدہ ہے ۔ایک انسان جب اللہ اور نبی کے پیغامات پڑھ سن کر اپنا اندر ٹٹولتا ہے تو حق سے آگاہ ہو جاتاہے اور جان جاتاہے کہ دین و دنیا میں توازن رکھنا ہی کامیابی ہے ۔ بے شک سمجھنے والوں کیلئے کھلی نشانیاں ہیں جبکہ حد سے گزر نے والوں کےلئے دنیا و آخرت دونوں میں خسارہ ہے ۔ہم مانتے ہیںکہ آج کہیں نہ کہیں ہم خسارے میں ہیںکیونکہ توازن کھو دیا ہے اور جنھیں راہبری کرنا تھی انھیں سمیٹنے سے فرصت نہیں جیسا کہ جوگذشتہ برس گزرا اس میںکیا کھویا اور کیا پایا ؟بظاہر عام سا سوال لگتا ہے لیکن کسی کو بھی غصہ دلانے کو کافی ہے کیونکہ ہم نے صرف کھویا ہی کھویا ہے ،ناقص حکمت عملیوں ،سیاسی جنگوں اور انتقامی سرگرمیوں نے پورے سال کو عوام کےلئے سزا بنا دیا ہے ۔مقام افسوس یہ کہ کوئی پشیمان بھی نہیں لیکن سبھی پریشان ہیں ۔ان گنت سوالات آنکھوں میں ہیں مگر لب آزاد نہیں !لیکن یہ سوالات چند افراد نہیں بلکہ اس ملک میں مقیم ہر فرد کے لبوں پر ہیں کہ سیاسی قائدین نے گذشتہ برس جو پالیسیاں بنائیں عوام کو کیا مفادات حاصل ہوئے ؟جو مہ و مہر پر کمندیں ڈالنے کے دعوے کئے گئے ان سے کتنے گھروں میں دیپ جلے ؟بنیادی عوامی مسائل میں سے کس کا حل نکالا گیا ؟بنیادی سہولیات زندگی میں سے کونسی سہولت فراہمی کو یقینی بنایا گیا ؟دہشت و خوف کے جس عفریت کا خاتمہ ہو چکا تھا اس نے سر کیسے اٹھایا ؟قدرتی آفات سے متاثرہ خاندانوں کےلئے معقول انتظامات کر دیے گئے ہیں؟عدالتی و قانونی نظام کو کس حد تک مﺅثر اور در پردہ مفادات کے حصول سے پاک کر دیا گیا ہے ؟ غربت اورنا خواندگی کے خاتمے کے جو اہداف مقرر کئے گئے تھے وہ کہاں تک حاصل ہوئے ہیں ؟ہم اندرونی و بیرونی دشمنوں میں گھر چکے ہیں اور ہماری معیشیت کی ناﺅ ڈوب چکی ہے مگر کوئی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں کیونکہ سبھی مصلحت کے پردے میں مفادات کا بیوپار کرتے ہیں اور انکے مفادات سانجھے ہوتے ہیں سوتیلے تو بس عوام ہیں جو کل پریشان تھے اور آج بدحال ہیں۔ یقیناجب ہم گزرے سال کا ذکر کرتے ہیں تو افسوس و مایوسی میں گھر جاتے ہیں مگر ہمیں نئے سال کو صبح نو سمجھتے ہوئے یقین رکھنا ہوگا کہ غموں کی رات ڈھل جائے گی اور نیا سال امن و سلامتی ،صحت و تندرستی ،خوشحالی اور خوشیوں کا پیامبر ہوگا۔۔
قارئین کرام ! آئیے نئے سال کا آغاز اس دعا سے کرتے ہیں: یااللہ! ہمیںصراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرما اور اس پر ثابت قدم رکھ تاکہ ہم دنیا و آخرت دونوں میں سرخرو ہوسکیں ۔اس وقت جو ملکی حالات ہیں ایسے میں سبھی سیاستدانوں کو چاہیے کہ وقتی طور پر اپنی سیاسی جنگیںاور انتقامی سوچیں بھلا کر مل جل کر کام کریںبلکہ خود سے عہد کریں کہ ہم سب معمولی مفادات کی خاطر ہر طرح کی غیر معیاری اور غیر ذمہ دارانہ حرکات ترک کر دینگے اور سیاست کو مقدس مشن سمجھتے ہوئے خود کو عوامی فلاح و بہبود کے لئے وقف کر دیں گے کیونکہ 
رکھتے ہیں جو اوروں کے لیے پیار کا جذبہ ،
وہ لوگ کبھی ٹوٹ کے بکھرا نہیں کرتے! 
آپ سب کو نیا سال بہت بہت مبارک ہو ۔

ای پیپر دی نیشن