قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں قومی سلامتی سے متعلق  تمام چیلنجوںسے عہدہ برا¿ ہونے کا عزم 


وزیراعظم میاں شہبازشریف کی زیرصدارت قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں گزشتہ روز ملکی معیشت اور امن و امان کی صورتحال کا مفصل جائزہ لیا گیا اور دوٹوک عزم کا اظہار کیا گیا کہ پاکستان کے قومی مفادات پر کوئی آنچ نہیں آنے دی جائیگی اور نہ ہی کسی کو قومی سلامتی کے کلیدی تصور کو نقصان پہنچانے کی اجازت دی جائیگی۔ اجلاس میں وفاقی وزرائ‘ سروسز چیفس اور انٹیلی جنس اداروں کے سربراہان نے شرکت کی۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ملک کی معاشی صورتحال اور چیلنجز سے آگاہ کیا اور اس ضمن میں حکومت کی طرف سے اختیار کی گئی معاشی حکمت عملی اور اقدامات کے بارے میں اجلاس کے شرکاءکو بریفنگ دی جبکہ انٹیلی جنس اداروں نے ملک میں امن و امان کی مجموعی صورتحال اور دہشت گردی کی حالیہ لہر سے متعلق عوامل اور انکے سدباب کے اقدامات سے آگاہ کیا۔ خارجہ امور کی وزیر مملکت حناربانی کھر نے افغانستان کی صورتحال پر اجلاس کو بریفنگ دی اور پاکستان کے افغانستان کی عبوری حکومت سے ہونیوالے رابطوں سے آگاہ کیا۔ 
قومی سلامتی کمیٹی نے اس عزم کا اظہار کیا کہ پاکستان کی بقاءو سلامتی اور ترقی کے بنیادی مفادات کا نہایت جرا¿ت و بہادری‘ مستقل مزاجی اور ثابت قدمی سے تحفظ کیا جائیگا۔ اجلاس کے شرکاءنے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں شہداءکی عظیم قربانیوں کو خراجِ عقیدت پیشل کیا اور انکے اہل خانہ سے ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کیا۔ اجلاس کے شرکاءنے کہا کہ دہشت گرد پاکستان کے دشمن ہیں اور پوری قوم دہشت گردوں اور دہشت گردی کیخلاف ایک بیانیہ پر متحد ہے۔ پاکستان کو للکارنے والوں کو پوری قوت سے جواب ملے گا۔ 
ویسے تو ہماری ارض وطن امریکی نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر امریکی نیٹو فورسز کی جانب سے افغان سرزمین پر شروع کی گئی جنگ کے وقت سے ہی دہشت گردی کے آسیب کی زد میں ہے جس میں ہم نے امریکی فر نٹ لائن اتحادی ہونے کا خسارہ خودکش حملوں‘ دہشت گردی کی دوسری وارداتوں اور امریکی ڈرون حملوں سے ہونیوالی 80 ہزار کے لگ بھگ شہادتوں‘ لاکھوں افراد کے زخمی ہونے اور ملکی معیشت کو پہنچنے والے اربوں ڈالر کے نقصانات کی صورت میں اٹھایا ہے۔ تاہم گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان میں دہشت گردی اور عدم استحکام کیلئے افغان سرزمین جس انداز میں کھلم کھلا استعمال ہوئی وہ ہماری آزادی‘ خودمختاری اور سلامتی کے حوالے سے گزرے سال 2022ءکی المناک ترین کہانی ہے جس میں ہمارے محفوظ اور خوشحال مستقبل کے حوالے سے کئی اسباق موجود ہیں جنہیں پیشِ نظر رکھ کر ہی ہمیں موجودہ سال 2023ءکیلئے اپنی دفاعی اور قومی سلامتی کے تحفظ کی ٹھوس حکمت عملی طے کرنی ہے۔ 
اس حوالے سے جہاں ہمیں پاکستان افغانستان تعلقات سے متعلق اپنی قومی خارجہ پالیسی کا جائزہ لے کر اس پر نظرثانی کرنی ہے جس کا وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے تقاضا بھی کیا ہے‘ وہیں ہمیں گزشتہ سال کے دوران ملک میں پیدا ہوئے سیاسی بحران اور انتشار اور خلفشار کی رواں سال نوبت نہ آنے دینے کی بھی ٹھوس حکمت عملی طے کرنی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ سیاست دانوں کی باہمی چپقلش اور محاذآرائی کے نتیجہ میں ملک میں پیدا ہونیوالے سیاسی اور اقتصادی عدم استحکام سے ہی ہمارے بیرونی دشمنوں بالخصوص بھارت اور ملک دشمن عناصر کو ملک کی سلامتی کمزور کرنے کیلئے اپنی سازشیں بروئے کار لانے کا نادر موقع ملتا رہا ہے اور افغانستان کی طالبان حکومت کے عمائدین کو بھی ہماری اسی کمزوری کو بھانپ کر نہ صرف ہمیں افغانستان کے امن و استحکام کیلئے کی گئی کاوشوں پر مطعون کرنے کا موقع ملا بلکہ افغان طالبان کی جانب سے پاک افغان سرحد پر باڑ اکھاڑنے اور پاکستانی پرچم کی توہین کرنے کی بھی جرا¿ت ہوئی اور پھر دہشت گردوں کے افغان سرحد سے پاکستان میں داخل ہونے کے علاوہ افغان بارڈر فورسز کی جانب سے بھی پاکستان کی چیک پوسٹوں کو نشانہ بنانے اور پاکستان کی شہری آبادیوں تک پر فائرنگ اور بمباری کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا جو کھلم کھلا پاکستان کی آزادی‘ خودمختاری اور سلامتی کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ پاکستان کی جانب سے افغان سرزمین سے ہونیوالی دہشت گردی کی ہر ایسی واردات پر رسمی مذمت اور احتجاج کیا جاتا رہا ہے۔ دونوں ممالک کے مابین فلیگ میٹنگز بھی ہوئیں اور کابل انتظامیہ کی جانب سے آئندہ افغان سرزمین پاکستان کی سلامتی کیخلاف استعمال نہ ہونے دینے کے رسمی بیانات بھی دیئے جاتے رہے مگر عملی طور پر افغان سرزمین پاکستان کیخلاف ایک محاذ کی شکل اختیار کر چکی ہے جہاں سے ہمارے ازلی دشمن بھارت کو بھی ہماری سلامتی کیخلاف کھل کھیلنے کا موقع مل رہا ہے۔ 
یہ صورتحال ہمارے لئے اس حوالے سے بھی لمحہ¿ فکریہ ہے کہ افغانستان کے امن و استحکام کیلئے عالمی سطح پر کی گئی ہماری کاوشوں کے نتیجہ میں ہی امریکی افواج کی افغانستان سے واپسی ممکن ہوئی اور طالبان کی کابل کے اقتدار میں واپسی کی راہ ہموار ہوئی جس کے بعد افغانستان اقتصادی بدحالی کا شکار ہوا تو افغان معیشت کو سنبھالنے کیلئے بھی پاکستان نے عالمی برادری سے تعاون کی اپیل کی۔ اگر افغانستان میں امن و استحکام کیلئے کی گئی ہماری ان کاوشوں کا صلہ افغانستان کی طالبان حکومت کی جانب سے ہمارے ساتھ بدترین دشمنی کی صورت میں ملا ہے تو یہ صورتحال ہمارے لئے لمحہ¿ فکریہ ہونی چاہیے کہ ہم نے کابل انتظامیہ کے ساتھ اب تک کیونکر ریشہ خطمی کی پالیسی اختیار کی ہوئی ہے۔ اس تناظر میں ہمیں رسمی احتجاج اور مذمتی قراردادوں سے آگے بڑھ کر ملکی سلامتی و استحکام کے تناظر میں پڑوسی ممالک افغانستان اور بھارت کے ساتھ خودمختاری کے تقاضوں کے مطابق قومی خارجہ پالیسی وضع کرنا ہوگی۔ 
نئے سال کے دوران ہماری حتیٰ الوسع کوشش ہونی چاہیے کہ ملک کے اندر کسی کو سیاسی عدم استحکام اور انتشار پھیلانے کا موقع نہ ملے کیونکہ ایسے ہی حالات ملک دشمنوں کیلئے ملک کی سلامتی سے کھیلنے کیلئے سازگار ہوتے ہیں۔ ہماری سکیورٹی فورسز بلاشبہ ملک کے دفاع اور شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کی مکمل استعدا و صلاحیت رکھتی ہیں اور اپنی ہزاروں جانوں کے عوض انہوں نے دہشت گردوں اور انکے سرپرستوں و سہولت کاروں کو نکیل ڈالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ گزشتہ روز بھی ڈی آئی خان کی تحصیل کلاچی میں نکواڑہ چوکی پر راکٹ حملہ کرنےوالے ہشت گردوں کیخلاف فوری جوابی کارروائی کرکے ہماری سکیورٹی فورسز نے متعدد دہشت گردوں کو ہلاک کیا ہے جبکہ پنجاب میں بھی دہشت گردوں کو نکیل ڈالنے کیلئے شدت پسندوں کیخلاف اپریشن تیز کر دیا گیا ہے اور صوبے میں 100 سے زائد مشتبہ شدت پسندوں کو شیڈول 4 میں شامل کرلیا گیا ہے جبکہ سی ٹی ڈی نے پنجاب میں اب تک دو سو سے زائد اپریشن کئے ہیں۔ بے شک ہماری سیکورٹی فورسز دفاع وطن کے جذبے سے سرشار ہیں اور ملک کے تحفظ و دفاع کیلئے قومی سلامتی کمیٹی کے گزشتہ روز کے اجلاس میں بھی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لانے کے عزم کا اعادہ کیا گیا ہے۔ خدا ہماری ارض وطن کو سلامت تاقیامت رکھے اور سال 2023ءملک کی ترقی‘ خوشحالی‘ سلامتی اور سیاسی و اقتصادی استحکام کا سال ثابت ہو۔ 

ای پیپر دی نیشن