شہیدکیپٹن شبیر ”شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے“

Jan 01, 2023


بلا شبہ شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے ‘ ملک و دین کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والے کبھی بھی مرتے نہیں ہیں. شہید ہمیشہ شاد باد‘ زندہ باد رہتے ہیں۔ نہ صرف ملک و قوم بلکہ اقوام ِ عالم معترف ہیں کہ شہیدوں ‘ غازیوں اور بہادر فوجی افسروں و جوانوں کی دھرتی پوٹھوہار کے شیروں نے سوہنے دیس پاکستان کیلئے ہر محاذ پر اپنی جانیں قربان کی ہیں۔ ان میں سے ایک نام فاتح چھمب کیپٹن شبیر حسین شاہ شہیدؒ کا ہے۔ 1971 ءکی پاک بھارت جنگ میں چھمب جوڑیاں کے معرکہ حق و باطل میں بحیثیت ایڈ جوڈنٹ کیپٹن شبیر حسین شاہ نے بڑے ہی عزم و استقلال سے دشمن کو سیکٹر چھمب میں روک لیا اور بھر پور بہادری کے ساتھ چھمب کا سارا علاقہ چھین لیا جہاں آج بھی سبز ہلالی پرچم لہرا رہا ہے اور شبیر شہید کی جرات و عظمت کے گیت گا رہا ہے ۔ 6 دسمبر 1971 ءکو کیپٹن شبیر نے دادِ شجاعت دیتے ہوئے رُتبہ شہادت پایا۔ زندہ اقوام اپنے شہیدوں کو کبھی بھی فراموش نہیں کرتی ہیں ۔ اُردو‘ پنجابی اور پوٹھوہاری زبان کے شاعر وں نے کیپٹن شبیر حسین شاہ شہیدؒ کے حوالے سے ان گِنت نظمیں قلمبند کی ہیں۔ شہیدکے برادرِ اصغر اور معروف شاعر کبیر حسین شاہ اختر حجازی فرماتے ہیں کہ کیپٹن شبیر شاہ شہید میری جان ہیں اور سوھنی دھرتی پوٹھوہار دھرتی کی آن بان شان ہیں ۔ کچھ عرصہ قبل صاحبزادہ کبیر حسین شاہ اختر نے اپنے برادرِ اکبر پہ لکھے جانے والے منظوم کلام کو مرتب کر کے کتابی صورت میں ”اکھیاں دا تارا“ کے نام سے شائع کیاتھا۔”اکھیاں دا تارا“ میں جن شاعروں کا کلام شامل ہے ان میں ہم بھی شامل ہیں۔ فاتح چھمب کے نام سے میری نظم کے چند اشعار حاضرِ خدمت ہیں :۔
اپنے دیس کی خاطر اُس نے جان فِدا کی اپنی 
باقی قوم کو بھی اس شاہ نے راہ دکھلائی اپنی 
نام رہے گا اس کا باقی جب تک ہیں ہم زندہ 
قوم وطن میں سدا رہے گا پائندہ تابندہ 
حق کی خاطر لڑنا مرنا سنت پاک حسینیؑ
وطن و دین کی خاطر شاہد جاں پڑتی ہے دینی 
 خطہ پوٹھوہار کے ممتاز شاعر کی کتاب ”تارا لوئی ناں“ شائع ہوگئی۔ میں نے اس کتاب کا دیباچہ بھی لکھا ہے ‘ بے شک کبیر حسین شاہ اختر حجازی کا یہ دوسرا مجموعہ کلام ”تارا لوئی ناں“ ادب نگر میں خوبصورت اضافہ ہے۔ میرے والدِ گرامی راجہ محمد رشید مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ یہ جو لوئی والا تارا ہے اسے دیکھ کر لوگوں کی صبح کا آغاز ہوتاہوتا تھا‘ جب یہ تارا نمودار ہوتا تھا تبھی لوگ جاگتے تھے اور اپنے کام کاج شروع کرتے تھے قدیم زمانے میں جب گھڑیاں نہیں ہوتی تھیں تو وقت کا اندازہ ان ستاروں کی نقل و حرکت سے ہی لگایا جاتا تھا۔ ”تارا لوئی ناں“ شعر و ادب کا ایک دریا ہے جسے شاہ جی نے مہارت اور خوبصورتی کے ساتھ کوزے میں بند کیا ہے۔ اس سے قبل ان کی پنجابی شاعری پر مبنی کتاب ”پھٹ ہجر فراق دے“ شائع ہوئی تھی جسے اہلیانِ پوٹھوہار نے بہت پسند کیا اور سراہاتھا۔ کبیر حسین شاہ اختر اپنے شیر جوانوں کے تذکرے بڑی ہی محبت سے کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ:
تیرے نال دے سنگی کر دے سرحداں دی رکھوالی 
پاک وطن نوں میلی اکھ کوئی رہے نہ دیکھن والی 
دیس ول آون والے طوفاں کئی وار انہاں ٹالے 
کفر دیاں سب چالاں سمجھن ناں اُنہاں دے چالے 
شیر جوان بہادر فوجی جاں باز شکاری 
چار چوفیرے دُھماں پئیاں جان وطن تے واری 
صاحبزادہ کبیر حسین شاہ اختر بہت ہی اچھے ادیب‘ نثر نگار اور بلند پایہ شاعر ہیں۔ پاک دیس دا مان‘ فاتح چھمب اور حق کے مسافر ان کی مقبول تصانیف ہیں۔ ان کا کلام اہم کتب و جرائد اور ادبی رسائل میں شائع ہو چکا ہے۔ اپنے بڑے بھائی فاتح چھمب کیپٹن شبیر حسین شاہ شہیدکے حوالے سے کبیر شاہ اختر کا ایک چوبرگہ پیش ِ خدمت ہے:
کیپٹن شبیر وڈا بھرا میرا 
جس وڈیاں گلاں کر چھوڑیاں نے 
فتح 71 دی جنگ وچ چھمب کر کے 
جھنڈے لائے اس سیکٹر وچ جوڑیاں نے 
ہمتاں عظمتاں دی داستان سی اُوہ 
واگاں پچھے شبیر نہ موڑیاں نے 
راہِ حق وچ اختر شہید ہو کے 
اُوہ چڑھیا جنتی پوہڑیاں نے 

مزیدخبریں