پاکستان مےں جاری واقعات کا تسلسل مفروضہ کے گرد گھوم رہا ہے۔ مفروضہ ےہ ہے کہ اگر فوری انتخابات ہو جائےں تو مخصوص سےاسی جماعت کو ےقےن ہے کہ وہ اقتدار مےں آجائے گی بلکہ دوتہائی اکثرےت حاصل کر ے گی ۔ اسی مفروضے کے گرد ان کی ساری سےاست کی توانائی صرف ہو رہی ہےں ۔ظاہر ہے اس مفروضے کو جھٹلانے والے بھی بہت ہے ، اب ےہ کس حد تک حقےقت ہے؟ اس کو پرکھنے کی ضرورت ہے خاص طور پر ان کو جو اس اچھوتے خےال مےں حقےقت کا رنگ بھر جانے کی امےد پر اپنی ہر کشتی کو جلانے پر تلے ہوئے ہےں ۔انتخابات تو جمہورےت کا حسن ہےں اور جمہوری ذہن رکھنے والے افراد کے ہاں تو اسے تقدس کا درجہ بھی حاصل ہے کےونکہ اس کے نتےجہ مےں جو قےادت منتخب ہو کر آتی ہے اس کی ساکھ پر کوئی سوال نہےں ہوتا ہے ،عمومی طور پر تو اےسا ہی ہے تاہم اےسا بھی ہوا ہے کہ انتخابی عمل پر سوال اٹھتے رہتے ہےں تو ان شہبات کو دور کرنا چاہئے،اس سے پہلے ستمبر مےں انتخابات کی بات چلی تھی،ستمبر تو گذر گےا اور دسمبر چل رہا ہے ،اب پھرمارچ اور اپرےل مےں الےکشن کا ذکر ہو رہا ہے ،کےا اےسا ممکن ہے؟بعض اےسے حقائق ہےں جو اس کے معاون نہےں ہےں ،جو الےکشن چاہ رہے ہےں ،انہوں نے نئے چناو¿ کے لئے اب تک کےا کچھ کےا ،دو بار مارچ کےا ،لاک ڈاون کی کوشش کی ،چالےس ،پچاس جلسے کئے،اسمبلےاں تورنے کی بات کی ، قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کی بات کی ، مگر اس سے کچھ نہےں ہو سکا بلکہ پنجاب مےں لےنے کے دےن کا منظر پےدا ہو چکا ہے ،اور گوہر مقصود کے ملنے کا کوئی موقع نظر نہےں آ رہا ہے ،اس کی وجہ کےا ہے ۔خاک نشےں کی نظر مےں اس کی دو وجوہ ہےں،پہلی اندرون حالات اور دوسرے اس وقت ملک کے بارے مےں
جو بےن الاقوامی ماحول ہے، وہ نئے انتخابات کو سپورٹ نہےں کر رہا ہے ،عمران خان نے اب تک جو انٹروےوز دئے ہےں ان مےں سے بےشتر اےسے مےڈےا پرسنز کے ساتھ ہےںجو ان کے حامی سمجھے جاتے ہےں،بلکہ ان مےں سے چند اےسے بھی ہےں جن کے خےالات من وعن وہی ہےں کہ ان مےں اور سےاسی جماعت کے دےگر قائدےن مےں کوئی خاص فرق نظر نہےں آتا ہے ، تاہم یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کبھی اپنے ناقدےن کے سامنے آئےں اور ان کی طرف سے اٹھائے جانے والے سوالات کا جواب دےں،قائد جماعت جب اپنے دور حکومت کی کامےابےوں کا ذکر کرتے ہےں تو وہ بہت سے فگرز بےان کرتے ہےں ۔کاغذوں مےں واقعی اےسا ہی لکھا گےا ہے ،مگر ےاد رکھےں انھی فگرز نے آج کی صورت حال کو جنم دےا ہے ،ملک مےں چونکہ کرونا وبا نے وےسی صورت حال پےدا نہےں کی تھی جس کا سامنے دنےا کی ترقی ےافتہ معےشتوں کو تھا،دنےا کو اشےاءکی ضرورت تھی،ہم نے ان کو برامد کےا ،ان اشےاءکی تےاری کے لئے باہر سے مال منگوانا پڑا اس کا نتےجہ کےا ہوا؟بدترےن خسارہ ہوا جس کاخمےازہ آج بھگت رہے ہےں ۔ان کے دور کے آخری سال مےں کئی بار منی بجٹ لانا پڑا جس کا مقصد درآمدات کو کم کرنا تھا ،مگر نقصان ہو چکا تھا ،دوسرا معاملہ قرضوں مےں اضافہ کا تھا ،اےک جماعت جو ماضی کی سےاست مےں ملک کے قرضوں پر تشوےش ظاہر کرتے رہی ہو اس کا زےب نہےں دےتا تھا کہ وہ ملکی قرضوں کے حجم کو اس سطح پر لے جائے جو اس وقت موجود ہے ۔معےشت کی ”اورہےٹ “کرنے کا نتائج اس وقت سامنے ہےں ،جی ڈی پی تےن ےا چار فی صدکے تناسب سے ترقی کرتی تو ہم زےادہ محفوظ تھے ،چھ فی صد کی شرح ترقی نے کباڑہ کر دےا ،اس سال جون مےں جب بجٹ پےش ہو رہا تھا تو اےسی علامات تھےں،جن سے بحالی ظاہر ہونا شروع ہو گئی تھی مگر سےلاب نے آ لےا ،اس مےںشک نہےںہے کہ معاشی صورت حال مشکل ہے مگر دگر گوں نہےںہے ،مارچ تک مشکلات رہےںگی،اپرےل مےں پاکستان کو عالمی طور پر مشکل سفارتی محاذ کا سامنا تھا ،اس طرح کے پورپی ےونےن ،سمےت مختلف ممالک کی جانب سے اس دور مےں جو بےانات سامنے آئے ان سب مےں ملک کے بارے مےں اچھا تاثر نہےں تھا ،ےہ ےاد رکھنا چاہئے کہ ےہی وہ ملک ہے جو ہماری برامدات کی منڈی ہےں ،اس وقت ےہ بحث ممکن نہےں ہے کہ ہم نے وقت کے ساتھ نئی منڈےوں کو کےوں تلاش نہےں کےا ہے ،اس وقت جو سفارتی کوششےں ہو رہی ہےں ان کا مقصد ملک کے تعلقات کو بہتر بناناہے ،اس لئے ملک کے اندرونی اور بےرونی ماحول کو دےکھتے ہوئے نئے چناو کے لئے ماحول ساز گار نظر نہےں آتا ہے ،اس لئے انتظار فرمائےں،ہی چلتا رہے گا ،بہت ہی اچھا ہوتا کہ اپنی مقبولےت دکھانے کی بجائے پارلمےنٹ مےں جانے کا آپشن استعمال کےا جاتا ،تو اس کے نتائج آج بہت اچھے ہوتے ، اور ان سے قطعی مختلف ہوتے ، جن کا سامنای اس وقت جماعت کو ہے ،ہر طرف کھائےاں موجود ہےں ،سےاست اےک آرٹ ہے اور س کو بہت ہی زےرکی سے بروئے کا لانا چاہئے ،ےہ موقع دےتی ہے مگر بہتر سےاست کرنے والے اس کو اپنے لئے استعال کر لےتے ہےں ،ان کوسوچنا چاہئے محض چار سال مےں اےسا کےا ،کےا گےا،کہ نوبت ےہاں تک آ چکی ہے ،صاف لگتا ہے کہ بند گلی مےں آ چکے ہےں،الٹے پاو¿ں واپس جانا ہو گا ،باقی ملک نے چلنا ہے اور اور ملک کے عوام نے وقت آنے پر نئے چناو مےں حسہ بھی لےان ہے ،سب سے گزارش ہے کہ جتنا ممکن ہو سکے آئندہ انتخابات کو شفاف بناے مےں کوئی کسی نہ چھوڑی جائے مسائل بہت ہےں ، ےہ سمجھ جانا چاہئے کہ مشکوک انتخابات اور اسر اس کی نتےجہ مےں بننے والی حکومتوں کی وجہ سے ہی آج کی سورت حال پےد ہوئی ہے اور اس مےں غےر منتخب حکومتوں کا حصہ کہےں زےادہ ہے ۔