جنوبی کوریا کی خبر رساں ایجنسی ’’یونہاپ ‘‘ کے مطابق اتوار کو شمالی کوریا نے مشرقی سمندر جسے جاپان کا سمندر بھی کہا جاتا ہے میں ایک مختصر فاصلے تک مار کرنے والا بیلسٹک میزائل لانچ کردیا۔اور یونہاپ نے جنوبی کوریا کے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ یہ لانچ 24 گھنٹے سے بھی کم عرصے میں لگاتار دوسرا ایسا اقدام تھا۔ یہ لانچنگ دارالحکومت پیانگ یانگ کے علاقے یونگ سیونگ سے کی گئی۔ میزائل کی یہ لانچنگ مقامی وقت کے مطابق اتوار کی صبح 02:50 کے قریب نئے سال کے پہلے دن کی گئی۔
دوسری جانب جنوبی کوریا کے صدر یون سوک یول نے اتوار کو کہا کہ شمالی کوریا جوہری اور میزائل اشتعال انگیزی جاری رکھے گا ، جنوبی کوریا کی فوج کو اس کا واضح جواب دینا چاہیے۔
شمالی کوریا کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن نے اپنے ملک کے جوہری ہتھیاروں میں بڑے پیمانے پر اضافے پر زور دیا ہے۔ انہوں ن خاص طور پر جوہری جوابی حملے شروع کرنے کے لیے نئے طاقتور میزائلوں کے حصول پر زور دیا۔ ایجنسی نے حکمراں جماعت کے اجلاس کے اختتام کے بعد ایک رپورٹ میں کہا کہ پیانگ یانگ “ایک بین البراعظمی بیلسٹک میزائل سسٹم تیار کرے گا، جس کا بنیادی کام تیز رفتار نیوکلیئر حملے کا مقابلہ کرنا ہے۔
مقامی میڈیا کے مطابق کم جونگ اُن نے ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کی بڑے پیمانے پر تیاری کا حکم دیا۔ جنوبی کوریا کی فوج نے شمالی کوریا کے میزائل تجربات کے سلسلے کو سنگین اشتعال انگیزی قرار دیا جو جزیرہ نما کوریا اور اس سے باہر کے امن و استحکام کو نقصان پہنچاتے ہیں اور پیانگ یانگ پر زور دیا کہ وہ اس طرح کے عمل کو روکے۔
ہفتے کے روز، پیانگ یانگ نے تین مختصر فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائلوں کا آغاز کیا تھا۔ سیول نے اعلان کیا کہ سال کے اختتام پر بیلسٹک میزائل لانچ کئے گئے اور 2022 کے دوران شمالی کوریا نے غیر معمولی تعداد میں میزائل فائر کیے اور اپنے پڑوسیوں کے خلاف دشمنی کو تیز کیا ہے۔
2022 میں جزیرہ نما کوریا پر کشیدگی میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ ایک ایسے وقت میں جب شمالی کوریا نے اس سال ریکارڈ ہتھیاروں کے تجربات کیے۔ جن میں بین البراعظمی بیلسٹک میزائلوں کا فائر بھی شامل ہے .جس پر اقوام متحدہ کی پابندیوں کے ذریعے تجربہ کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ہفتے کا آغاز جنوبی کوریا کی جانب سے ٹھوس ایندھن سے چلنے والے خلائی لانچر کے کامیاب تجربے کے اعلان سے ہوا۔ اس سے اگلے روز شمالی کوریا کے پانچ ڈرونز نے جنوبی کوریا کی فضائی حدود میں دراندازی کی ۔جنوبی کوریا کے جوائنٹ چیفس آف سٹاف نے کہا ہے کہ اس نے شمالی کوریا کی طرف سے جمعہ صبح 8 بجے مشرقی سمندر میں داغے گئے 3 مختصر فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل” کا پتہ لگایا ۔یہ میزائل پیانگ یانگ کے جنوب میں چنگوا سے لانچ کیے گئے اور انہوں نے سمندر میں گرنے سے پہلے تقریباً 350 کلومیٹر کا سفر طے کیا۔
جوائنٹ چیفس آف سٹاف نے مزید کہا کہ ہماری فوج امریکہ کے قریبی تعاون کے ساتھ نگرانی کو بڑھاتے ہوسے مکمل چوکنا ہے۔پیر کے روز شمالی کوریا کے ڈرونز نے جنوبی کوریا میں دراندازی کی جو پانچ سال میں ایسی پہلی دراندازی تھی۔ سیئول میں وزیر دفاع کی جانب سے شمالی کوریا کو معافی مانگنے پر مجبور کیا گیا ۔جنوبی کوریا کی فوج ایک بھی ڈرون کو مار گرانے میں ناکام رہی تھی۔جنوبی کوریا کے صدر یون سوک یول نے اس فضائی دراندازی کو “ناقابل برداشت” قرار دیا تھا۔ جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے مطابق جمعرات کو جنوبی کوریا کی فوج نے اپنے اینٹی ڈرون دفاع کو مضبوط بنانے کے لیے مشقیں کی ہیں۔ سیول میں یونیورسٹی آف نارتھ کورین سٹڈیز کے پروفیسر یانگ مو جن نے اے ایف پی کو بتایا کہ شمالی کوریا کی جانب سے آج میزائل لانچ کرنے کا مقصد سیول کے ٹھوس ایندھن والے خلائی لانچر کا جواب دینا ہے۔نیا میزائل لانچ حکمران ورکرز پارٹی کے ایک بڑے سالانہ اجلاس کے ساتھ ہوا جس میں رہنما کم جونگ اُن اور دیگر اعلیٰ عہدیدار 2023 کے لیے سفارت کاری، سلامتی اور معیشت جیسے اہم شعبوں میں اپنے سیاسی اہداف پیش کریں گے۔ اس سال کے شروع میں کم جون اُن نے اعلان کیا کہ ان کے ملک کی جوہری طاقت کے طور پر حیثیت ناقابل واپسی ہے۔شمالی کوریا کے سرکاری میڈیا کے مطابق بدھ کے روز کم نے شمالی کوریا کی فوج کے لیے نئے بڑے اہداف” مقرر کیے ہیں۔شمالی کوریا کی حکومت عام طور پر سال کے آخر میں ہونے والے اجلاسوں میں آنے والے سال کے لیے ملک کی ملکی اور خارجہ پالیسی کی ترجیحات کی نقاب کشائی کیلئے گزشتہ سال کے حالات کا جائزہ لیتی ہے۔ پچھلے سالوں میں کم ہر سال یکم جنوری کو تقریر کرتے تھے لیکن حال ہی میں انہوں نے سال کے آخر میں ہونے والے کاکسز میں اعلانات کرنے کی روایت کو ترک کر دیا۔امریکہ اور جنوبی کوریا کئی مہینوں سے خبردار کر رہے ہیں کہ پیانگ یانگ اپنا ساتواں جوہری تجربہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔شمالی کوریا اپنی جوہری اور میزائل سرگرمیوں کی وجہ سے 2006 سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کے ایک سلسلے کا شکار ہے۔