حسبِ موقع ازقلم : رقیہ غزل
حیرت ہے کہ وہ عوام جو پورا سال مہنگائی ،بے روزگاری اور جائز و ناجائز ٹیکسوں کے عذاب میں جلتے ہیں وہ نئے سال کا جشن کس خوش و خروش اورڈھٹائی سے مناتے ہیں کہ یوں پیسہ اڑاتے ہیں جیسے یہ جشن فرض ٹھہرا ۔۔یہی تو مسئلہ ہے کہ ہم وہ قوم بن چکے ہیں جو آنے والے کل کا نہیں سوچتی بس دیکھا دیکھی ہر وہ کام کیا جارہا ہے جو غیر مسلم اقوام فخریہ کرتی ہیں اور یہ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ غیر مسلم اقوام میں جو انقلاب آیا ہوا ہے اس کا رخ خیر سے شر کی طرف ہے جو کہ انسانیت کشی کی منزل ہے لیکن ہمیں ادراک ہونا چاہیے کہ ایسے اللے تللے سبھی نہیںکرتے اور کر بھی نہیں سکتے کیونکہ گذشتہ چار برسوں میں جس رفتار سے بیروزگاری اور مہنگائی بڑھی ہے کہ جائز و ناجائز ٹیکسوں اور پٹرولیم مصنوعات کے علاوہ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں جس طرح تاریخی اضافے ہوئے ہیں اس کے بعد تو دو وقت کی روٹی مشکل سے مل رہی ہے امیر اور غریب برابر ہوچکا ہے تو ایسے میں کھیلوں ، میلوں اور جشنوں کے لیے سرمایہ کہاں سے آئے گا ؟ یہ فضول خرچیاں اور اللے تللے کرنے والے مٹھی بھر سرمایہ دار اور ان کی اولادیں ہیں جو نسل در نسل وڈیرہ شاہی اور افسر شاہی کے مزے لوٹتی چلی آرہی ہیں باقی وہ ہیں جو ان کی وفاداری کا دم بھرتے ہیں اور بدلے میں پاتے ہیں ۔ عام آدمی تو بس تالی بجانے والا بن کے رہ گیا ہے جسے روٹی یا پیسوں کا لالچ دیکر ایسے میلوں ،سیاسی مجموعوں اور جشنوں میں بلایا جاتا ہے ۔روٹی میں کشش ہی بہت ہے کیونکہ زندگی کی ساری جنگ ہی روٹی کی ہے ۔روٹی کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ ادھر آدمی مرتا ہے اور ادھر آوازیں گونجنے لگتی ہیں ’’روٹی کون پکائے گا‘‘ تبھی تو بلھے شاہ نے کہا تھا کہ ’’تو کی جانے یار امیراں ۔۔روٹی بندہ کھا جاندی اے ‘‘ در حقیقت آسمان کی وسعتوں میں آتشبازی کے بلند ہو تے شعلے ، رنگ برنگی لائیٹوں سے دلہن کی طرح سجی عمارتیں اور راستے، اندھا دھند فائرنگ کی گونج میں سہمی غریب بچوں کی کلکاریاں اور آسمان کو رنگین کرتی پھلجڑیاں مفلسی کا مذاق ڑاتی ہیں لیکن اس شوراور غل غپاڑے میں چھپی وحشت چیخ چیخ کر کہتی ہے کہ ’’تجھے ہونا تھا فرشتوں سے بھی افضل لیکن ، ہائے انسان تُو درندوں سے بھی بدتر نکلا ‘‘۔۔بلاشبہ ’’مرگ احساس یہ آدم بد ترین مرگ دنیا ست ‘‘احساس کی موت دنیا کی بد ترین موت ہے ۔
احساس ہی تو مر چکا ہے ورنہ ہم ایسے اللوں تللوں اور بیان بازیوں کی بجائے یہ سوچتے کہ ہم نے گذشتہ سال کیا کھویا اور کیا پایا ؟ ہمارے حقوق کیا تھے اور ہمیں کیا دیا گیا ؟ ہمارے بعد آزاد ہونے والے ہم سے آگے کیسے گزر گئے ؟ ایشائی خطے میں ہمارا مقام کیا ہے ؟ ہمارا تعلیمی نظام کہاں کھڑا ہے ؟ ہمارے بچے کس ثقافت کو اپنا رہے ہیں ؟ وہ دو قومی نظریہ جو حصول پاکستان کی بنیاد بنا ہم سے کب اور کیسے چھین لیا گیا ؟ ہماری اقدار و روایات کو مغرب کی چکا چوند کیسے اور کیونکر چاٹ گئی ؟ ہارے کالجوں میں رقص و سرود کی محفلوں کا انعقاد کونسی ترسیل اقدار کا حصول ٹھہرا ؟ ہمارا میڈیا غیر اخلاقی مواد اور مغربی تہذیب کیسے اور کس کی ایماء پر دکھانے لگے ؟ ہمارا تھیٹر بے حیائی اور عریانی کے فروغ کے آلہ کار کے نام پر دنیا میں زیر بحث کیوں آگیا ؟ ہمارے دلوں سے خوف الٰہی اور خوف آخرت کب اور کیسے ختم ہوا ؟ ہم اپنے پیارے نبی حضرت محمد ؐ کی تعلیمات بھلا کر نام نہاد فرقوں اور ذاتوں میں بٹ کر تفرقہ بازی کا شکار کیسے ہوئے؟ ہمارے اندر سے فکر زیاں کب ختم ہوا اور کب نفرت و عناد نے بھائی چارے اور صلح رحمی کی جگہ لی ؟افسوس ۔۔ نفسا نفسی نے سوچنے ہی نہ دیا اور جنھوں نے سوچا وہ پتھر ہوگئے کیونکہ ابھی تو اشیائے خوردونوش اور اشیائے ضروریہ ،ادویات اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تاریخی اضافے ، سفاکی اور نا اہلی زیر بحث تھی اور احتجاج بھی جاری تھے کہ ملک میں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ شروع ہو گئی ہے ‘ انتخابات کا اعلان کر دیا گیا اور وہ جو کل تک یہ بیانات داغتے پھرتے تھے کہ اگر آپ آدھی روٹی کھا لیں گے تو قیامت نہیں آجائے گی وہ دلکش وعدوں اور پرکشش دعووں کا ایسا جال پھیلا رہے ہیں کہ ہر پلیٹ فارم پر ماضی کے حکمرانوں کی ناقص کار کردگیوں ،نا اہلیوں او ر اپنی غیر مقبول کامیابیوں کے افسانے سنارہے ہیں اور ایک دوسرے کو کہہ رہے ہیں کہ:’’کچھ وقت کی خاموشی ہے پھر شور آئے گا ۔تمھارا صرف وقت آیا ہے ہمارا دور آئے گا‘‘اور عوام سبھی کو یہ کہتے ہیں ’’وقت مجھ پر دو کھٹن گزرے ہیں ساری عمر میں۔۔اک ترے آنے سے پہلے اک ترے جانے کے بعد۔ایسی گہما گہمی ہے کی کسی کمزور کی فریاد انصاف کے ایوانوں سے نہیں ٹکراتی بالفرض ٹکرا جائے تو بھی کوئی نہیں سنتا کہ لاقانونیت نے معاشرتی اساس کی دھجیاں بکھیر رکھی ہیں۔
عوامی رائے یہی ہے کہ پی ڈی ایم کے بعد نگران حکومت بھی سیاسی توازن اور گڈ گورننس قائم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے ۔ اس پر بے تکے جواز اور دلیلیں مضحکہ خیز ہیںجبکہ کسی بھی ریاست کے امیر کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ عام اشیائے خوردونوش جیسی بنیادی چیزیں بھی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو جائیں لیکن سربراہان ملت ہر روز اربوں روپے کی لاگت کے تشہیری منصوبوں کا افتتاح کریں !تبھی عوام کہہ رہے ہیں کہ کیا اسی کا ہے نام ہمدردی ۔۔مٹ گئے ہم ،تمھارے لب نہ ہلے ‘‘۔زیادتی تو یہ ہے کہ ترجمان وزراء ترکی بہ ترکی کہہ رہے ہیں کہ 2024 میں سب ٹھیک ہوجائے گا اور مہنگائی ختم ہوجائے گی ’’تا تریاق از عراق آوردہ شود،مار گزیدہ مردہ باشد ‘‘یعنی (جب تک عراق سے تریاق آئے گا سانپ کا کاٹا مر جائے گا ) یعنی جو حالات ہیں اس میں تو کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا کجا یہ کہ اگلے برس کا دعوی کیا جائے ’’ہنوز دلی دور است ‘‘ اور دعوی بھی اس بنیاد پر کہ اگر جیتے تو تریاق مل جائے گا ۔سیاست وہ کھیل ہے جس میں جیت اسی کی ہوتی ہے جو دور اندیش ہوتا ہے ۔تبھی سیاست میں آخری اننگ بھی کوئی اور کھیلتا ہے اور جیتتا بھی کوئی اور ہے کیونکہ عوام بھی کار کردگی دیکھ کر نہیں بلکہ ماحول دیکھ کر ووٹ دیتے ہیں جوکہ سیاسی ٹاک شو بناتے ہیںاور ایسی ہی ہوشیاریوں اور شعبدہ بازیو ں کا نام ہم نے سیاست رکھا ہوا ہے ۔یہاں ایک دلچسپ واقعہ یاد آگیا۔۔ ایک سیاسیات کے پروفیسر نے اپنے کسی شاگرد سے کہاکہ’’ آج تمہاری دانشمندی کا امتحان ہوگا ،کیا تم تیار ہو ؟‘‘شاگرد نے ہاں میں سر ہلایا تو استاد نے پوچھا کہ ’’مرغوں کی لڑائی کے ٹورنامنٹ میں یہ کیسے پتہ چلے گا کہ کون جیالا ہے ؟‘‘شاگرد فوراً بولا ’’جو لڑانے کے لیے بطخ لایا ہو ‘‘۔مخصوص پارٹی کے سپوٹر کا کیسے پتہ چلے گا ‘‘؟ شاگرد :’’جو بطخ کی جیت پر شرط لگائے گا ‘‘۔استاد :’’اور پسندیدہ پارٹی کے حامی کا کیسے پتہ چلے گا ‘‘؟شاگرد : ’’وہ بطخ پر شرط لگائے گا اور بطخ جیت جائے گی ‘‘۔عجب گورکھ دھندا بنا رکھا ہے سیاست کے نام پر سبھی نے ایک الگ سے کاروبار چمکا رکھا ہے جس میں عوام کے لیے جھوٹے وعدوںاور کھوکھلے نعروں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے لیکن یہ وقت بھی گزر جائے گا اور بحیثیت مسلمان ہمارا یقین ہے کہ نیا سال ‘ نیا سورج نیا پیغام لیکر آئے گااور غم کے بادل ہمیشہ کے لئے چھٹ جائیں گے ۔۔