قصہ قومی علماء کانفرنس اور وزیراعظم سے ملاقات کا …!!

گوشہ تصوف … ڈاکٹرپیرظہیرعبّاس قادری الرفاعی 
drzaheerabbas1984@gmail.com
وفاقی وزارت صحت پاکستان کے زیرانتظام قومی علماء و مشائخ کانفرنس سے صرف دو دن پہلے واٹس ایپ پر ادھورا دعوت نامہ وصول ہوا 28دسمبر2023کی صبح  8 بجے ہم وزیراعظم ہاؤس میں تھے ، ڈاکٹر ثاقب صاحب نے پرتپاک استقبال کیا۔سیکیورٹی کی لیت و لعل ومنتظمین کے ناقص انتظامات کی بدولت 40 منٹ بعد داخلے اور گاڑی پار کرنے کی اجازت ملی۔ ہمارے ساتھ پروفیسر ڈاکٹر عاصم نعیم پنجاب یونیورسٹی بھی تھے۔انکے ساتھ گپ شپ کے بعد ہال میں داخل ہوئے۔لفٹ کے ذریعے بیسمنٹ تک پہنچے جہاں آڈیٹوریم میں کانفرنس کا سٹیج چھ کرسیوں پر سجا ہوا تھا جو بعد میں وسیع ہو گیا۔ ڈاکٹر ندیم جان وفاقی وزیر صحت، ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ،شیخ الحدیث ڈاکٹر ابوالحسن شیخ الجامعہ جامعہ محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف، مفتی ڈاکٹر عمیر محمود صاحب،ممبر اسلامی نظریاتی کونسل سے خوشگوار ملاقاتیں ہوئیں۔ ہمارے دائیں جانب  مولانا عادل عطاری ڈائیریکٹر فنانس سیلانی ویلفئیر اور بائیں جانب محترم ڈاکٹر عطاء  الرحمان سیکرٹری وزارت مذہبی امور اور ان کے بعد علامہ ڈاکٹر راغب حسین نعیمی مہتمم جامعہ نعیمیہ لاہور موجود تھے۔ایک گھنٹہ انتظار کے بعد پونے دس بجے کانفرنس کا آغاز کیا گیا۔وزیراعظم ہاؤس کی مرکزی بلڈنگ باہر سے تو خوب سرسبز و شاداب و دلنشیں تھی اور خوبصورت باغیچے بہاریں بکھیر رہے تھے مگر بلڈنگ کے اندر لگے تمام فوارے بند اور تالاب بالکل خشک ہو چکے ہیں  جس کی وجہ سے پی ایم ہائوس  کی بلڈنگ کا اندرونی منظر بے رونق آفت زدہ اور  وحشت ناک تھا اور وہ کسی نئے مسیحا کی منتظر ہے۔تلاوت کیلئے کسی بھی نامور قاری کو نا بلائے جانے کی بدولت مجھے یہ شرف ملا۔نعت مقبول ؐ پیش کرنے  میں بھی یہی صورت حال رہی۔یوں میں بزعم خود قارپاکستان اور حسان پاکستان بن گیا۔اب میں وزارت ہیلتھ کی مہربانی سے  آج کل کے رواج کے مطابق اپنے نام کے ساتھ قاری وزیراعظم ہاؤس اور نعت خواں وزیراعظم ہاؤس بھی لکھوا سکتا ہوں۔یہ سب اسلامی جمہوریہ پاکستان کی وزارت ہیلتھ میں قرآن کریم اور نعت سے عدم توجہی اور بد ذوقی کی واضح دلیل ہے۔تمام مہمانوں کو ٹی اے ڈی اے کیلئے منسٹری آف ہیلتھ کی طرف سے فارم دئیے گئے تاکہ ان میں اپنی معلومات بنک اکاؤنٹ اور فون نمبر لکھ دیں تا کہ ان کو آنے جانے کا خرچہ بھیجا جائے۔
میں نے اپنا نام اور فون نمبر لکھنے کے بعد یوں لکھا''میں ایک محب وطن پاکستانی ہوں امیر نہیں مگر متوسط طبقہ سے ہوں اور میں دین کے کام کیلئے حکومت سے سفر کا خرچہ نہیں لوں گا کیونکہ میں امام اہل سنت حضرت مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی کا تربیت یافتہ ہوں جو اپنے زمانے میں چائے کا کپ بھی حکومت کے خرچے پر نہیں پیتے تھے '' یہ تحریر لکھ کر فارم واپس کر دیاامریکہ کے ایمبیسڈر سمیت دنیا کے مختلف ممالک کے ایمبیسڈرز اقوام متحدہ کے نمائندگان کے ساتھ ساتھ پاکستان بھر کے تمام مکاتب فکر کے نامور علماء و مشائخ تشریف فرما ہوچکے تو دوسرے سیشن میں وزیر اعظم انوارالحق کاکڑکی آمد ہو گئی.دارالعلوم کراچی جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی،جامعہ خیرالمدارس ملتان،جامعہ سلفیہ فیصل آباد،جامعہ اشرفیہ لاہور،جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک،جامعہ پشاور،جامعہ اسلامیہ راولپنڈی،جامعہ الکوثر اسلام آباد و دیگر نامور مدارس کے مہتمم مدرسین شیوخ الحدیث حضرات محققین اسلام اور نامور مذہبی  و روحانی شخصیات سمیت  پنجاب یونیورسٹی لاہور،انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد،بہاولپور یونیورسٹی،اور دیگر اداروں سے اسلامیات کے سپیشلسٹ ڈاکٹرز بھی تشریف فرما ہوچکے تھے اتنی عظیم شخصیات کی موجودگی میں  دوبارہ تلاوت کیلئے کوئی بھی نامور حتی کہ گمنام قاری بھی موجود نہیں تھا تو تلاوت کیلئے ایک مولانا صاحب کو دعوت دی گئی جنہوں نے ''قومی علماء  کانفرنس'' میں غلط تلفظات اور بے سری آواز کے ساتھ تلاوت فرمائی۔اور نعت سے یہ کہہ کر جان چھڑوائی گئی کہ وزیراعظم صاحب کی سیکیورٹی شدید ترین اور سخت ترین ہے جس کی وجہ سے نعت کیلئے کوئی وقت نہیں بچا اور نا ہی سیکیورٹی آفیسرز نعت پڑھنے کی اجازت دے رہے ہیں۔جبکہ وزیراعظم صاحب کو چاہئے تھا کہ نعت کے بغیر پروگرام شروع ہی نا کرواتے کیونکہ جس پارلیمنٹ میں وہ بیٹھتے ہیں وہاں کا ہر اجلاس تلاوت و نعت سے ہی شروع ہوتا ہے۔اس دوران مجھے پیارے ماموں جان قاری سید صداقت علی شاہ صاحب قاری مشتاق انور صاحب اور سید منظورالکونین اقدس  و سید ذیشان بخاری و علی رضا ارشد بہت یاد آئے پھر خطابات شروع ہوئے اور اہل سنت کی صرف دو  شخصیات کو سٹیج پر بلایا گیاجامعہ نعیمیہ کے مہتمم صاحب و عیدگاہ شریف کے سجادہ نشین اور دیگر مسالک سے کثیر علماء  و مشائخ سٹیج پرموجود تھے جن کے خطابات ہوئے جبکہ بھیرہ شریف جماعت اہل سنت پاکستان دعوت اسلامی سیلانی ویلفیئر پاکستان و دیگر بڑے دھڑوں کو عوام میں ہی بٹھایا گیا۔میری نظر میں یہ بے توقیری ہے اور اس کی ایک وجہ اہل سنت کے آپس کے جھگڑے بھی ہیں یہ سلوک ہمیں عبرت دلانے کیلئے کافی ہے کاش کہ ہم لوگ اندر کے سازشیوں کو ناکام کر سکیں اور ایک بار پھر سنیت کا بول بالا ہو اور یہ اتحاد اہل سنت سے ہی ممکن ہے وگرنہ نہیں!
آخر میں عزت مآب وزیراعظم پاکستان ڈاکٹر انوارالحق کاکڑنے ایمان افروز اور جاندار خطاب کیا جو کہ حقیقت میں ایک سچے جذبوں کے مصداق مسلمان وزیراعظم کو سجتا تھا پولیو ڈراپس پلانے کیلئے مختلف مشورے دئیے علماء کرام و مشائخ عظام کو کہا کہ آپ سب کی ذمہ داری ہے کہ میرے پاکستان کے بچے  پولیو قطرے نا پینے کی وجہ سے اپاہج نا ہونے دیں۔لہٰذا محراب و منبر الیکٹرانک میڈیا سوشل میڈیا پر اپنا کردار ادا کریں اور فلسطین کے شہید بچوں کو بھی خراج تحسین پیش کیا گیا اور واحد ایٹمی طاقت پاکستان کے پرائم منسٹر صاحب نے نیتن یاہو شیطان کا نام تو لیا مگر اس کے ظلم و بربریت کے سامنے بے بسی کا بھی اظہار فرمایا۔ بعد ازاں تمام مسالک کی تائید سے فتویٰ جاری کیا گیا کہ پولیو کے قطرے حلال ہیں اور نقصان دہ  یا جان لیوا ہرگز نہیں ہیں  لہٰذا عوام پر واجب ہے کہ اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلا کر پاکستانی بچوں کو اپاہج ہونے سے بچائیں۔پرمغز ایمان افروز اسلام و امت مسلمہ و وطن پاکستان کی محبت سے لبریز خطاب کے بعد نامور شخصیت حضرت پیر خالد سلطان قادری سروری نے اختتامی دعا فرمائی اور وزیراعظم صاحب سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہوا۔عزت مآب وزیراعظم صاحب نے میرے ساتھ بھی مصافحہ کیا اور میری تعریف و حوصلہ افزائی کی۔مجھ سمیت اکثر علماء  و مشائخ نے ان کی ایمان افروز تقریر کو سراہا انہوں نے سب علماء  و مشائخ میں گھل مل کر خود آگے بڑھ کر مصافحہ کیا جس نے کوئی بات کہی اسے غور سنا اور احسن انداز میں جوابات دئیے اور پھر سب مہمانان گرامی کھانے کیلئے دوسرے ہال میں چلے گئے۔ میں تو پہلے ہی اجڑے گلستان سے ڈرا اور سہما ہوا تھا لہٰذا بغیر کھانا کھائے ہی واپسی کیلئے رخت سفر باندھا اور دعا کی کہ اے اللہ پاکستان کو پھر سے ایسی عزت و خوشحالی عطا فرما کہ اس کی ہاں میں اقوام عالم کی ہاں اور اس کی ناں میں اقوام عالم کی ناں رکھ دے۔آمین یا رب

ای پیپر دی نیشن