فیض عالم :قاضی عبدالرئوف معینی
وہ قوم بڑی خوش قسمت ہوتی ہے جسے ایک حقیقی رہنما ء یعنی لیڈر مل جائے۔لیڈر شپ رہنمائی کرنے کی صلاحیت کا نام ہے۔یہ صلاحیت ہر انسان میں نہیں ہوتی بلکہ اللہ رب العزت کی عطا ہے جسے چاہے عطا فرما دے۔لیڈر شپ چند صلاحیتوں اور اوصاف کا مجموعہ ہے جو ایک فرد میں موجود ہوں اور وہ ان صلاحیتوں کو استعمال کر کے قافلے کو منزل سے ہمکنار کر دے۔حضرت علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے ایک شعر میں ان تمام صلاحیتوں کو بڑی عمدگی سے نگینے کی طرح پر و دیا۔فرماتے ہیں
نگہ بلند سخن دل نواز جاں پر سوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے
قافلہ کے رہنما کے پیش نظر بلند مقاصد ہوں،اس کے الفاظ میں اوراندازمیںایسی جاذبیت اورتاثیر ہو کہ سننے والوں کے دل میں اتر جائیں،وہ اہل قافلہ کے ہر فرد کے جذبات و احساسات، فلاح و بہبود کا دل و جاں سے خیال رکھے، ان کے دکھ درد و تکلیف کو اپنا سمجھے،اس کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو اور اس کے دل میں ہر ایک فرد کے لیے سچی تڑپ موجود ہو۔تلخ حقیقت ہے کہ آج کے دور میں ہر فرد ،سیاست دان ،افسر ،منتظم پر اپنے آپ کو لیڈر بنا کر پیش کرنے کا خبط سوار ہے لیکن وہ ایک رہنماء کے لئے درج بالا اوصاف سے کوسوں دور ہے ۔
لچھے دار تقریروں ،انتخابی منشوروں اور دلکش بیانیوںسے عوام کو بے وقوف بنانے کا سلسلہ شد و مد سے جاری ہے۔ لیڈرحضرات کی حالت اس سے مختلف نہیںکہ
اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا غازی یہ تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا
اور بقول عارف کھڑی شریف میاں محمد بخش رحمتہ اللہ علیہ
جو شاعر بے پیڑا ہووے سخن اوہدے وی رکھے
بن پیڑاں تاثیراں ناہیں ،اگ بن دھوواں نہ دھکے
یعنی جس کے دل میں درد نہ ہو اس کے الفاظ میں بھی تاثیر نہیں ہوتی۔آگ کے بغیر دھواں نہیں پیدا ہوتا۔گزشتہ پون صدی سے تو عوام کی حالت یہ ہے کہ
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہ بر کو میں
دیکھا جائے تو لیڈر شپ کے درج بالا اوصاف اور صلاحیتیںحضرت قائد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ میںیکجا نظر آتی ہیں۔آپ کے سامنے مسلمانوں کے لیے ایک الگ ریاست کے قیام کا ایک عظیم مقصد تھا۔آپ کے الفاظ میں تاثیر تھی،آپ کے اقوال آپ کے کردار سے مطابقت رکھتے تھے، آپ جرأت و استقلال، عزم و ہمت کا پیکر تھے اور آپ کے دل میں اسلامیان ہند کے لیے درد تھا۔اس لیے تو برصغیر کا پیر و جواںآپ کا دیوانہ تھا۔دنیا کے نقشہ پر ایک عظیم الشان اسلامی ریاست کا قیام آسان کام نہ تھا۔یہ اللہ کے فضل و کرم سے ممکن ہوا۔ قائد اعظم کے بلند کردار،کرشماتی شخصیات اور حکمت عملی نے نا ممکن کو ممکن کر دکھایا۔وجے لکشمی پنڈت نے سچ کہا کہ ’’ مسلم لیگ کے پاس ایک سو گاندھی اور دو سو ابوالکلام آزاد ہوتے اور کانگرس کے پاس ایک محمد علی جناح ہوتے تو ہندوستان کبھی تقسیم نہ ہوتا‘‘۔مغربی دانشور سٹینلے والپرٹ پکار اٹھاکہ’’ کچھ شخصیات ایسی ہوتی ہیں ہیں جو تاریخ کا دھارا تبدیل کر سکتی ہیں،بہت کم ایسے ہیں جنہوں نے دنیا کا نقشہ بدلا ہے،اور ایسے تو نایاب ہیں جنہوں نے نیا ملک تخلیق کیا ہو۔محمد علی جناح نے یہ تینوں کارہائے نمایاں سر انجام دیے‘‘۔قائداعظم کی لیڈر شپ کے حوالے سے اپنوں اور غیروں کے بے شمار اقوال رقم کرنے کے لیے کئی کالموں کی ضرورت ہے۔افسوس یہ عظیم قائد قیام پاکستان کے کچھ عرصہ بعد دار فانی سے پردہ فرما گئے۔مملکت خداد میں قیادت کا نہ ختم ہونے بحران پیدا ہو گیا ۔دعا ہے کہ اللہ پاک اس قوم کو نیک،باکردار،با صلاحیت ،مخلص اور صالح قیادت نصیب فرمائے جو اپنا پیٹ اور اکائونٹ بھرنے کی بجائے عوام کا سوچے۔قائداعظم کی زندگی کی نمایاں خوبیاں وقت کی پابندی،نظم و ضبط،دیانت داری،اخلاص،محنت ،صداقت ،امانت تھیں۔موجودہ قیادت میںیہ سارے اوصاف ڈھونڈنے سے نہیں ملتے اور ہم خواب دیکھ رہے ہیں ملک کی ترقی کے۔قائد اعظم کی تصویر ہر سرکاری دفتر میں لگی ہوئی ہے اور اس تصویر کے سامنے جو کچھ ہو رہا ہے اس کو لکھتے ہوئے قلم لرز جاتا ہے۔جناح کیپ اور شیروانی ہمارا قومی لباس ہے ۔مملکت خداد میںاس با رعب اور با وقار لباس کی جو تذلیل ہو رہی ہے وہ شرمناک ہے۔جب اس لباس میں ملبوس ویٹر ،بیرے اور چوکیدارسرکاری دفاتر میںمغربی لباس میں ملبوس افسران کی خدمت کرتے ہوئے دیکھیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔اس حوالے سے پالیسی سازوں اور حکمرانوں کی نالائقی یا غفلت پر ماتم نہ کیا جائے تو اور کیا کریں۔پچیس دسمبر کو سرکاری داروں اور تعلیمی اداروں میں قائد اعظم کے حوالے سے تقریبات منعقد کرنے کی ضرورت ہے لیکن ہمارے پالیسی سازوں نے اس دن چھٹی کا اعلان کیا ہوا ہے ۔
حیراں ہوں کہ دل کو روئوںکہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
یاد رہے کہ ملک عزیز کو سیاسی ،معاشرتی ،معاشی اور اخلاقی بحران سے نکالنے کے لیے عظیم قائد کی تعلیمات کو مشعل راہ بناناہوگا۔سیاسی قائدین کو اپنی ذات اور جماعت کے دائرے سے نکلنا ہو گا ۔